تفسیر سورت مؤمن۔
مجاہد نے کہا کہ یہ (حم) ایسا ہی ہے جیسے اور سورتوں کے پہلے حروف ہوتے ہیں اور بعض کا قول ہے کہ وہ نام ہے ‘ بقول شریح بن ابی اوفی عبسی
”مجھ کو حامیم یاد دلاتا ہے ‘ اس حال میں نیزے چل رہے ہیں
آگے بڑھنے سے قبل کیوں نہیں حامیم پڑھا“
الطویل“ بمعنی احسان قدرت ”واخرین“ بمعنی جھکنے والے‘ ذلیل و خوار اور مجاہد نے کہا ”الی النجاة“ سے مراد ایمان ہے”لیس لہ دعوة‘ یعنی ”یسجرون“ ان پر آگ بھڑکائی جائے گی”تمرحون“ اتراتے تھے‘ علاءبن زیاد جنہم کا ذکر کر رہے تھے تو ایک شخص نے کہا تم کیوں لوگوں کو ناامید کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کیا میں قدرت رکھتا ہوں کہ لوگوں کو ناامید کروں‘ حالانکہ اللہ بزرگ و برتر کا فرمان ہے کہ ”اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے‘ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسرفین دوزخ والے ہیں‘ لیکن تم پسند کرتے ہو‘ کہ اپنی بد اعمالیوں کے باوجود تمہیں جنت کی خوشخبری دی جائے‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اس لئے مبعوث کیا کہ اس کو جنت کی خوشخبری سنائیں‘ جس نے آپ کی اطاعت کی اور اس کو جہنم سے ڈرائیں‘ جس نے آپ کی نافرمانی کی۔
راوی: علی بن عبد الله , ولید بن مسلم , اوزاعی , یحیی بن ابی کثیر , محمد بن ابراهیم تیمی , عروه بن زبیر
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ قَالَ قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَخْبِرْنِي بِأَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِکُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِفِنَائِ الْکَعْبَةِ إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ فَأَخَذَ بِمَنْکِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوَی ثَوْبَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا فَأَقْبَلَ أَبُو بَکْرٍ فَأَخَذَ بِمَنْکِبِهِ وَدَفَعَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَائَکُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّکُمْ
علی بن عبد الله، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحیی بن ابی کثیر، محمد بن ابراهیم تیمی، عروه بن زبیر سے روایت کرتے ہیں، انهوں نے بیان کیا که میں نے عبدالله بن عمروبن العاص سے کہا، که مجھ سے وه سب سے زیاده سخت حرکت بیان کیجئے جو مشرکوں نے رسول الله صلی الله علیه وسلم کے ساتھ کی تھی انهوں نے کہا که ایک بار رسول الله صلی الله علیه وسلم کعبه کے صحن میں نماز پڑھ رهے تھے، تو عقبه بن ابی معیط آیا اور رسول الله صلی الله علیه وسلم کے دوش مبارک کو پکڑ کر اپنا کپڑا آپ کی گردن میں ڈال کر مروڑنے لگا، اور گلا گھونٹنے لگا، اس وقت حضرت ابوبکر آئے، اور اس کی گردن کو پکڑ کر رسول الله صلی الله علیه وسلم کے پاس سے ہٹایا اور کہا که ’’کیا تم اس شخص کو اس لئے قتل کرتے ہو، که وه کہتا ہے که میرا رب الله ہے، اور تمهارے رب کے پاس سے کھلی دلیلیں لے کر آیا ہے (یعنی حضرت محمد صلی الله علیه وسلم)
Narrated Urwa bin Az-Zubair:
I asked 'Abdullah bin 'Amr bin Al-'As to inform me of the worst thing the pagans had done to Allah's Apostle. He said: "While Allah's Apostle was praying in the courtyard of the ka'ba, 'Uqba bin Abi Mu'ait came and seized Allah's Apostle by the shoulder and twisted his garment round his neck and throttled him severely. Abu Bakr came and seized 'Uqba's shoulder and threw him away from Allah's Apostle and said, "Would you kill a man because he says: 'My Lord is Allah,' and has come to you with clear Signs from your Lord?" (40.28)
