تفسیر سورت احقاف اور مجاہد نے کہا تفیضون بمعنی تقولون (تم کہتے ہو) اور بعض نے کہا کہ اثرۃ اثرۃ سے مراد بقیہ علم ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ ماکنت بدعا من الرسل سے مراد ہے کہ میں سب سے پہلا رسول نہیں ہوں اور دوسروں نے کہا کہ اراتیم میں ہمزہ استفہام وعید کے طور پرہے یعنی جو تم کہتے ہو اگر وہ صحیح ہے تو وہ عبادت کئے جانے کا مستحق ہے اور اراتیم سے آنکھ کا دیکھنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس سے مراد علم ہے یعنی کیا تم جانتے ہو کیا تمہیں خبر ملی ہے اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو انہوں نے کوئی چیز پیداکی ہے ؟ (آیت) اور جس نے اپنے والدین سے کہا اف ہے تمہارے لئے کیا تم مجھے اس بات سے ڈراتے ہو کہ میں دوبارہ نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں گذرگئیں اور وہ اس کے ان کلمات سے پناہ مانگتے ہیں ۔ (آخر آیت تک)
راوی: احمد ابن وہب , عمرو , ابوالنضر , سلیمان بن یسار , عائشہ
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَی حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا عَمْرٌو أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِکًا حَتَّی أَرَی مِنْهُ لَهَوَاتِهِ إِنَّمَا کَانَ يَتَبَسَّمُ قَالَتْ وَکَانَ إِذَا رَأَی غَيْمًا أَوْ رِيحًا عُرِفَ فِي وَجْهِهِ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْغَيْمَ فَرِحُوا رَجَائَ أَنْ يَکُونَ فِيهِ الْمَطَرُ وَأَرَاکَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَ فِي وَجْهِکَ الْکَرَاهِيَةُ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ مَا يُؤْمِنِّي أَنْ يَکُونَ فِيهِ عَذَابٌ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ وَقَدْ رَأَی قَوْمٌ الْعَذَابَ فَقَالُوا هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا
(آیت) ترجمہ پس جب انہوں نے اس کو اپنی وادیوں کے آگے آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے یہی بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کی تم جلدی مچاتے تھے یعنی ہوا جس میں درد ناک عذاب ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا کہ " عارض" سے مراد بدلی ہے۔
احمد ابن وہب، عمرو، ابوالنضر، سلیمان بن یسار، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا جس سے حلق کھل جائے آپ صرف تبسم فرماتے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ جب آپ ہوایا بادل دیکھتے تو آپ کے چہرے سے فکر ظاہر ہوتا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! لوگ جب بادل کو دیکھتے ہیں تو اس امید میں خوش ہوتے ہیں کہ شاید اس میں بارش ہو اور میں آپ کو دیکھتی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے ناگواری کے آثار ظاہر ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے اس بات کی طرف سے اطمینان نہیں ہوتا کہ اس میں عذاب ہو کون سی بات اس میں عذاب ہونے کی طرف سے مطمئن کرتی ہے ایک قوم کو ہوا ہی کے ذریعہ عذاب دیا گیا ایک جماعت نے عذاب دیکھ لیا اور کہا کہ یہ بادل ہے جو ہم پر مینہ برسائے گا۔
Narrated 'Aisha:
(the wife of the Prophet), I never saw Allah's Apostle laughing loudly enough to enable me to see his uvula, but he used to smile only. And whenever he saw clouds or winds, signs of deep concern would appear on his face. I said, "O Allah's Apostle! When people see clouds they usually feel happy, hoping that it would rain, while I see that when you see clouds, one could notice signs of dissatisfaction on your face." He said, "O 'Aisha! What is the guarantee for me that there will be no punishment in it, since some people were punished with a wind? Verily, some people saw (received) the punishment, but (while seeing the cloud) they said, 'This cloud will give us rain.' "
