تفسیر سورت الفتح اور مجاہد نے کہا کہ سیماھم فی وجوھہم میں سیما سے مراد چہرے کی نرمی اور ہئیت اور منصور نے بواسطہ مجاہد نقل کیا کہ اس سے مراد تواضع ہے شطأہ اپنی سوئی اپنی کلی فاستغلظ موٹا ہوا۔ سوق ساق کی جمع یعنی شاخ جو درختوں کو اٹھانے والی ہو اور دائرۃ السوء رجل السوء کی طرح ہے یعنی بری گردش دائر السوء سے مراد عذاب ہے تعزروہ تم اس کی مدد کرو شطہ بالی کا پٹھا کہ ایک دانہ سے دس آٹھ یا سات بالیان اگتی ہیں چنانچہ ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس قول سے یہی مراد ہے کہ فازرہ یعنی اس کو تقویت پہنچائی اور اگر وہ ایک ہوتی تو شاخ پر قائم نہ رہ سکتی یہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مثال کے طور پر بیان فرمایا ہے اس لئے کہ آپ تنہا نکلے پھر آپ کے اصحاب کے ذریعہ آپ کو قوت پہنچائی جس طرح ایک دانہ کو اس کے ذریعہ قوت بہم پہنچاتا ہے۔ جو اس سے اگتی ہے۔
راوی: عبداللہ بن مسلمہ , مالک بن زید بن اسلم ,
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِکٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ يَسِيرُ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسِيرُ مَعَهُ لَيْلًا فَسَأَلَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَنْ شَيْئٍ فَلَمْ يُجِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ ثُمَّ سَأَلَهُ فَلَمْ يُجِبْهُ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثَکِلَتْ أُمُّ عُمَرَ نَزَرْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ کُلَّ ذَلِکَ لَا يُجِيبُکَ قَالَ عُمَرُ فَحَرَّکْتُ بَعِيرِي ثُمَّ تَقَدَّمْتُ أَمَامَ النَّاسِ وَخَشِيتُ أَنْ يُنْزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ فَمَا نَشِبْتُ أَنْ سَمِعْتُ صَارِخًا يَصْرُخُ بِي فَقُلْتُ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَکُونَ نَزَلَ فِيَّ قُرْآنٌ فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَقَالَ لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ سُورَةٌ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ ثُمَّ قَرَأَ إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِينًا
(آیت) بے شک ہم نے فتح دی آپ کو ظاہر فتح۔
عبداللہ بن مسلمہ، مالک بن زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی سفر میں چل رہے تھے اور حضرت عمر بن خطاب بھی آپ کے ساتھ تھے رات کا وقت تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے آپ سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب نہ دیا پھر انہوں نے پوچھا تو آپ نے جواب نہ دیا پھر پوچھا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں اولاد سے محروم ہو تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین بار سوال کیا آپ نے تیری کسی بات کا جواب نہ دیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے اونٹ کو ہنکایا اور لوگوں سے آگے بڑھ گیا اور مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں میرے متعلق قرآن کی کوئی آیت نازل نہ ہوجائے ابھی تھوڑی دیر ہی نہ گزری تھی کہ میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو مجھے پکار رہا تھا میں ڈرا کہ کہیں میرے متعلق قرآن نہ نازل ہو رہا ہو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا کہ آج رات مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی جو مجھے ان تمام چیزوں سے زیاده محبوب ہے جن پر آفتاب طلوع ہوتاهے پھر آپ نے آیت إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُبِينًا پڑھی ۔
Narrated Aslam:
While Allah's Apostle was proceeding at night during one of his journeys and 'Umar bin Al-Khattab was traveling beside him, 'Umar asked him about something but Allah's Apostle did not reply. He asked again, but he did not reply, and then he asked (for the third time) but he did not reply. On that, 'Umar bin Al-Khattab said to himself, "Thakilat Ummu 'Umar (May 'Umar's mother lose her son)! I asked Allah's Apostle three times but he did not reply." 'Umar then said, "I made my camel run faster and went ahead of the people, and I was afraid that some Qur'anic Verses might be revealed about me. But before getting involved in any other matter. I heard somebody calling me. I said to myself, 'I fear that some Qur'anic Verses have been revealed about me,' and so I went to Allah's Apostle and greeted him.
He (Allah's Apostle ) said, 'Tonight a Sura has been revealed to me, and it is dearer to me than that on which the sun rises (i.e. the world)' Then he recited: "Verily, We have given you a manifest victory." (48.1)
