صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2053

تفسیر سورت حجرات اور مجاہد نے کہا کہ لا تقدموا سے مراد یہ ہے کہ فتویٰ یا جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سبقت نہ کیا کرو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نہ کہلوا دے امتحن خالص کر دیا ہے تنابزوا اسلام لانے کے بعد کافر نہ کہو یلتکم کم کر دے گا التبنا ہم نے کم کر دیا۔ (آیت) آپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو الخ تشعرون بمعنی تعلمون (تم جانتے ہو) اور شاعر اسی سے ماخوذ ہے۔

راوی: یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی , نافع بن عمر , ابن ابی ملیکہ

حَدَّثَنَا يَسَرَةُ بْنُ صَفْوَانَ بْنِ جَمِيلٍ اللَّخْمِيُّ حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْکَةَ قَالَ کَادَ الْخَيِّرَانِ أَنْ يَهْلِکَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا رَفَعَا أَصْوَاتَهُمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ عَلَيْهِ رَکْبُ بَنِي تَمِيمٍ فَأَشَارَ أَحَدُهُمَا بِالْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ أَخِي بَنِي مُجَاشِعٍ وَأَشَارَ الْآخَرُ بِرَجُلٍ آخَرَ قَالَ نَافِعٌ لَا أَحْفَظُ اسْمَهُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ لِعُمَرَ مَا أَرَدْتَ إِلَّا خِلَافِي قَالَ مَا أَرَدْتُ خِلَافَکَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا فِي ذَلِکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَکُمْ الْآيَةَ قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فَمَا کَانَ عُمَرُ يُسْمِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذِهِ الْآيَةِ حَتَّی يَسْتَفْهِمَهُ وَلَمْ يَذْکُرْ ذَلِکَ عَنْ أَبِيهِ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ

یسرہ بن صفوان بن جمیل لخمی، نافع بن عمر، ابن ابی ملیکہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ قریب تھا کہ دو سب سے بہتر آدمی ہلاک ہو جائیں یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں نے اپنی آوازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند کیں جس وقت آپ کے پاس بنی تمیم کے سوار آئے تو ان میں سے ایک نے بنی مجاشع کے بھائی اقرع بن حابس کی طرف اشارہ کیا اور دوسرے نے ایک دوسرے آدمی کی طرف اشارہ کیا نافع نے کہا مجھ کو نام یاد نہیں حضرت ابوبکر نے حضرت عمر سے کہا کہ تم نے صرف میری مخالفت کا قصد کیا تھا انہوں نے کہا کہ میرا ارادہ تمہاری مخالفت کا نہ تھا چنانچہ اس گفتگو میں ان کی آوازیں بلند ہو گئیں تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو بلند نہ کرو الخ ابن زبیر نے کہا اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر آہستہ بات کرتے کہ جب تک آپ دوبارہ نہ پوچھتے سن نہ سکتے اور یہ بات حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بیان نہیں کی ہے۔

Narrated Ibn Abi Mulaika:
The two righteous persons were about to be ruined. They were Abu Bakr and 'Umar who raised their voices in the presence of the Prophet when a mission from Bani Tamim came to him. One of the two recommended Al-Aqra' bin Habeas, the brother of Bani Mujashi (to be their governor) while the other recommended somebody else. (Nafi', the sub-narrator said, I do not remember his name). Abu Bakr said to Umar, "You wanted nothing but to oppose me!" 'Umar said, "I did not intend to oppose you." Their voices grew loud in that argument, so Allah revealed:
'O you who believe! Raise not your voices above the voice of the Prophet.' (49.2) Ibn Az-Zubair said, "Since the revelation of this Verse, 'Umar used to speak in such a low tone that the Prophet had to ask him to repeat his statements." But Ibn Az-Zubair did not mention the same about his (maternal) grandfather (i.e. Abu Bakr).

یہ حدیث شیئر کریں