تفسیر سورت ق
”رجیع بعید “لوٹنا بعید ہے ”فروج “شگاف اس کا واحد”فرج “ہے ”ورید“ سے وہ رگ مراد ہے جو حلق میں ہوتی ہے ”جمل “سے مراد گردن کی رگ ہے اور مجاہد نے کہا ماتنقص الارض منھم میں منھم سے مراد من عظامھم ہے (ان کی ہڈیوں سے ) تبصرہ سے مراد بصرت ہے حب الحصیدگیہوں باسقات لمبے افعیینا کیا ہم عاجز ہیں وقال قرینہ میں قرین سے مراد شیطان ہے ۔ جواس کے لئے مقر رکیا گیا ہے فنقبوا شہروں میں چلے اوالقی السمع سے مراد یہ ہے کہ کان لگائے اپنے نفس سے اس کے علاوہ اور کوئی بات نہ کرے ”حین انشاکم “ جب کہ تمہیں پیدا کیا اور تمہاری پیدائش کو ظاہر کیا ۔ رقیب عتید نگہبان تاک لگانے والے ”سائق وشھید “دو فرشتے ایک لکھنے والا دوسرا گوہ شہید اسے کہتے ہیں جو دل سے گواہی دینے والا ہو۔ ”لغوب “تکان اور دوسروں نے کہا کہ ”نضید “ کلی جب تک اپنے غلاف میں ہے ‘ اسکے معنی یہ ہیں کہ بعض بعض پر تہ کیا ہواہے جب وہ اپنے غلاف سے نکل جائے تو ”نضید “نہیں ہے ادبارالنجوم اور ادبار السجود میں عاصم سورہ ق میں الف کے فتح کے ساتھ اور سورہ طور میں الف کے کسرہ کے ساتھ پڑھتے تھے ‘ حالانکہ دونوں کا کسرہ اور نصیب پڑھ سکتے ہیں اور ابن عباس نے کہا کہ ”یوم الخروج “سے مرادوہ دن ہے جب کہ وہ قبروں سے نکالے جائیں گے ۔
(آیت ) اور جہنم کہے گی کیا اور بھی ہے ۔
راوی: عبداللہ بن محمد , عبدالرزاق , معمر , ہمام , ابوہریرہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحَاجَّتْ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَقَالَتْ النَّارُ أُوثِرْتُ بِالْمُتَکَبِّرِينَ وَالْمُتَجَبِّرِينَ وَقَالَتْ الْجَنَّةُ مَا لِي لَا يَدْخُلُنِي إِلَّا ضُعَفَائُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ قَالَ اللَّهُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لِلْجَنَّةِ أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِکِ مَنْ أَشَائُ مِنْ عِبَادِي وَقَالَ لِلنَّارِ إِنَّمَا أَنْتِ عَذَابِي أُعَذِّبُ بِکِ مَنْ أَشَائُ مِنْ عِبَادِي وَلِکُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا مِلْؤُهَا فَأَمَّا النَّارُ فَلَا تَمْتَلِئُ حَتَّی يَضَعَ رِجْلَهُ فَتَقُولُ قَطْ قَطْ فَهُنَالِکَ تَمْتَلِئُ وَيُزْوَی بَعْضُهَا إِلَی بَعْضٍ وَلَا يَظْلِمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا وَأَمَّا الْجَنَّةُ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنْشِئُ لَهَا خَلْقًا
عبداللہ بن محمد، عبدالرزاق، معمر، ہمام، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت اور دوزخ آپس میں جھگڑا کریں گی دوزخ کہے گی کہ میں متکبر اور ظالم لوگوں کے لئے مخصوص کردی گئی ہوں اور جنت کہے گی کہ مجھ کو کیا ہوگیا ہے کہ مجھ میں صرف کمزور اور حقیر لوگ داخل ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ کہ تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا رحمت کروں گا اور جہنم سے فرمائے گا کہ تو عذاب ہے میں تیرے ذریعہ سے جن بندوں کو چاہوں گا عذاب دوں گا اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے بھرنے کی ایک حد مقرر ہے لیکن دوزخ نہیں بھرے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا پاؤں اس میں رکھ دے گا تو وہ کہے گی کہ بس بس اس وقت دوزخ بھر جائے گی اور ایک حصہ دوسرے حصہ سے مل کر سمٹ جائے گا اور اللہ بزرگ و برتر اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہیں کرتا اور جنت کے لئے اللہ تعالیٰ ایک دوسری مخلوق پیدا کرے گا۔
Narrated Abu Huraira:
The Prophet said, "Paradise and the Fire (Hell) argued, and the Fire (Hell) said, "I have been given the privilege of receiving the arrogant and the tyrants.' Paradise said, 'What is the matter with me? Why do only the weak and the humble among the people enter me?' On that, Allah said to Paradise. 'You are My Mercy which I bestow on whoever I wish of my servants.' Then Allah said to the (Hell) Fire, 'You are my (means of) punishment by which I punish whoever I wish of my slaves. And each of you will have its fill.' As for the Fire (Hell), it will not be filled till Allah puts His Foot over it whereupon it will say, 'Qati! Qati!' At that time it will be filled, and its different parts will come closer to each other; and Allah will not wrong any of His created beings. As regards Paradise, Allah will create a new creation to fill it with."
