سرور عالم کا کافروں کو اسلام اور نبوت کی طرف بلانے کا بیان، اور اللہ کا فرمان، کہ ان میں سے ایک دوسرے کو اللہ کے سوا معبود نہ بنائے، اور اللہ کا فرمان اور کسی بشر کے لئے مناسب نہیں کہ اللہ اسے حکم اور نبوت عطا کرے، پھر لوگوں سے کہے، کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے ہو جاؤ۔
راوی: ابراہیم بن حمزہ , ابراہیم بن سعد , صالح بن کیسان , ابن شہاب , عبیداللہ بن عتبہ , عبداللہ بن عباس
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ کَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَتَبَ إِلَی قَيْصَرَ يَدْعُوهُ إِلَی الْإِسْلَامِ وَبَعَثَ بِکِتَابِهِ إِلَيْهِ مَعَ دِحْيَةَ الْکَلْبِيِّ وَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَی عَظِيمِ بُصْرَی لِيَدْفَعَهُ إِلَی قَيْصَرَ وَکَانَ قَيْصَرُ لَمَّا کَشَفَ اللَّهُ عَنْهُ جُنُودَ فَارِسَ مَشَی مِنْ حِمْصَ إِلَی إِيلِيَائَ شُکْرًا لِمَا أَبْلَاهُ اللَّهُ فَلَمَّا جَائَ قَيْصَرَ کِتَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ قَرَأَهُ الْتَمِسُوا لِي هَا هُنَا أَحَدًا مِنْ قَوْمِهِ لِأَسْأَلَهُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ أَنَّهُ کَانَ بِالشَّأْمِ فِي رِجَالٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدِمُوا تِجَارًا فِي الْمُدَّةِ الَّتِي کَانَتْ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ کُفَّارِ قُرَيْشٍ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَوَجَدَنَا رَسُولُ قَيْصَرَ بِبَعْضِ الشَّأْمِ فَانْطُلِقَ بِي وَبِأَصْحَابِي حَتَّی قَدِمْنَا إِيلِيَائَ فَأُدْخِلْنَا عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي مَجْلِسِ مُلْکِهِ وَعَلَيْهِ التَّاجُ وَإِذَا حَوْلَهُ عُظَمَائُ الرُّومِ فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُمْ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا إِلَی هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَقُلْتُ أَنَا أَقْرَبُهُمْ إِلَيْهِ نَسَبًا قَالَ مَا قَرَابَةُ مَا بَيْنَکَ وَبَيْنَهُ فَقُلْتُ هُوَ ابْنُ عَمِّي وَلَيْسَ فِي الرَّکْبِ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ غَيْرِي فَقَالَ قَيْصَرُ أَدْنُوهُ وَأَمَرَ بِأَصْحَابِي فَجُعِلُوا خَلْفَ ظَهْرِي عِنْدَ کَتِفِي ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لِأَصْحَابِهِ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا الرَّجُلَ عَنْ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ کَذَبَ فَکَذِّبُوهُ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَاللَّهِ لَوْلَا الْحَيَائُ يَوْمَئِذٍ مِنْ أَنْ يَأْثُرَ أَصْحَابِي عَنِّي الْکَذِبَ لَکَذَبْتُهُ حِينَ سَأَلَنِي عَنْهُ وَلَکِنِّي اسْتَحْيَيْتُ أَنْ يَأْثُرُوا الْکَذِبَ عَنِّي فَصَدَقْتُهُ ثُمَّ قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ قُلْ لَهُ کَيْفَ نَسَبُ هَذَا الرَّجُلِ فِيکُمْ قُلْتُ هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ قَالَ فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ مِنْکُمْ قَبْلَهُ قُلْتُ لَا فَقَالَ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ عَلَی الْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ قُلْتُ لَا قَالَ فَأَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ قُلْتُ بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ قَالَ فَيَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ قُلْتُ بَلْ يَزِيدُونَ قَالَ فَهَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ قُلْتُ لَا قَالَ فَهَلْ يَغْدِرُ قُلْتُ لَا وَنَحْنُ الْآنَ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ نَحْنُ نَخَافُ أَنْ يَغْدِرَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَلَمْ يُمْکِنِّي کَلِمَةٌ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا أَنْتَقِصُهُ بِهِ لَا أَخَافُ أَنْ تُؤْثَرَ عَنِّي غَيْرُهَا قَالَ فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ أَوْ قَاتَلَکُمْ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَکَيْفَ کَانَتْ حَرْبُهُ وَحَرْبُکُمْ قُلْتُ کَانَتْ دُوَلًا وَسِجَالًا يُدَالُ عَلَيْنَا الْمَرَّةَ وَنُدَالُ عَلَيْهِ الْأُخْرَی قَالَ فَمَاذَا يَأْمُرُکُمْ بِهِ قَالَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا نُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَانَا عَمَّا کَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَائِ بِالْعَهْدِ وَأَدَائِ الْأَمَانَةِ فَقَالَ لِتَرْجُمَانِهِ حِينَ قُلْتُ ذَلِکَ لَهُ قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُکَ عَنْ نَسَبِهِ فِيکُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ ذُو نَسَبٍ وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي نَسَبِ قَوْمِهَا وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَالَ أَحَدٌ مِنْکُمْ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ کَانَ أَحَدٌ مِنْکُمْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ يَأْتَمُّ بِقَوْلٍ قَدْ قِيلَ قَبْلَهُ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْکَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَعَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَکُنْ لِيَدَعَ الْکَذِبَ عَلَی النَّاسِ وَيَکْذِبَ عَلَی اللَّهِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مِنْ مَلِکٍ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ کَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِکٌ قُلْتُ يَطْلُبُ مُلْکَ آبَائِهِ وَسَأَلْتُکَ أَشْرَافُ النَّاسِ يَتَّبِعُونَهُ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّ ضُعَفَائَهُمْ اتَّبَعُوهُ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ حَتَّی يَتِمَّ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَکَذَلِکَ الْإِيمَانُ حِينَ تَخْلِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ لَا يَسْخَطُهُ أَحَدٌ وَسَأَلْتُکَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ لَا يَغْدِرُونَ وَسَأَلْتُکَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ وَقَاتَلَکُمْ فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ وَأَنَّ حَرْبَکُمْ وَحَرْبَهُ تَکُونُ دُوَلًا وَيُدَالُ عَلَيْکُمْ الْمَرَّةَ وَتُدَالُونَ عَلَيْهِ الْأُخْرَی وَکَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْتَلَی وَتَکُونُ لَهَا الْعَاقِبَةُ وَسَأَلْتُکَ بِمَاذَا يَأْمُرُکُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُکُمْ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَيَنْهَاکُمْ عَمَّا کَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُکُمْ وَيَأْمُرُکُمْ بِالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ وَالْعَفَافِ وَالْوَفَائِ بِالْعَهْدِ وَأَدَائِ الْأَمَانَةِ قَالَ وَهَذِهِ صِفَةُ النَّبِيِّ قَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَکِنْ لَمْ أَظُنَّ أَنَّهُ مِنْکُمْ وَإِنْ يَکُ مَا قُلْتَ حَقًّا فَيُوشِکُ أَنْ يَمْلِکَ مَوْضِعَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ وَلَوْ أَرْجُو أَنْ أَخْلُصَ إِلَيْهِ لَتَجَشَّمْتُ لُقِيَّهُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ قَدَمَيْهِ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ ثُمَّ دَعَا بِکِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُرِئَ فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوکَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ وَأَسْلِمْ يُؤْتِکَ اللَّهُ أَجْرَکَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَعَلَيْکَ إِثْمُ الْأَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا إِلَی کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ فَلَمَّا أَنْ قَضَی مَقَالَتَهُ عَلَتْ أَصْوَاتُ الَّذِينَ حَوْلَهُ مِنْ عُظَمَائِ الرُّومِ وَکَثُرَ لَغَطُهُمْ فَلَا أَدْرِي مَاذَا قَالُوا وَأُمِرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا فَلَمَّا أَنْ خَرَجْتُ مَعَ أَصْحَابِي وَخَلَوْتُ بِهِمْ قُلْتُ لَهُمْ لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي کَبْشَةَ هَذَا مَلِکُ بَنِي الْأَصْفَرِ يَخَافُهُ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ وَاللَّهِ مَا زِلْتُ ذَلِيلًا مُسْتَيْقِنًا بِأَنَّ أَمْرَهُ سَيَظْهَرُ حَتَّی أَدْخَلَ اللَّهُ قَلْبِي الْإِسْلَامَ وَأَنَا کَارِهٌ
ابراہیم بن حمزہ، ابراہیم بن سعد، صالح بن کیسان، ابن شہاب، عبیداللہ بن عتبہ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیصر کو خط لکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسلام کی دعوت دی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خط دحیہ کلبی کے ہاتھ بھیجا تھا، اور یہ حکم دیا تھا، کہ وہ اس خط کو سردار بصریٰ کے حوالہ کردیں، تاکہ وہ اس کو قیصر تک پہنچا دے، قیصر جب سے اللہ نے اسے فتح فارس عنایت کی تھی، مقام حمص سے بیت المقدس کی طرف گیا ہوا تھا اللہ کی اس نعمت کا شکریہ ادا کرنے کیلئے، پس جب قیصر کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نامہ مبارک پہنچا، اور اس نے اس کو پڑھا، تو کہا ان کی قوم کے کسی آدمی کو میرے پاس ڈھونڈھ لاؤ، تاکہ میں اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت پوچھوں، حضرت ابن عباس کہتے ہیں، مجھ سے ابوسفیان نے بیان کیا، کہ وہ اس زمانہ میں قریش کے چند لوگوں کے ساتھ تھے، جو بغرض تجارت شام گئے تھے، یہ سفر اس مدت میں ہوا، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان صلح قرار پائی تھی، ابوسفیان کہتے ہیں کہ ہمیں شام کے کسی مقام میں قیصر کے قاصد نے پایا، اور وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو بیت المقدس لے گیا، تو ہم قیصر کے سامنے لے جائے گئے، وہ اس وقت اپنے دربار میں بیٹھا تھا، اور سردار ان روم اس کے اردگرد جمع تھے، قیصر نے اپنے ترجمان سے کہا، کہ ان سے پوچھو کہ یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے، نسب میں سب سے زیادہ اس کا قریب ان میں کون ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان سب سے زیادہ ان کا قریب عزیز ہوں۔ قیصر نے کہا ان کے اور تمہارے درمیان کیا قرابت ہے؟ میں نے کہا کہ وہ میرے چچا کے بیٹے ہیں، قافلہ میں اس وقت میرے سوا عبد مناف کی اولاد میں سے کوئی نہ تھا، قیصر نے کہا ان کو میرے پاس لے آؤ اور میرے ساتھیوں کی نسبت حکم دیا، کہ وہ میری پیٹھ کے پیچھے میرے شانے کے پاس کھڑے کر دئیے جائیں، پھر اس نے اپنے ترجمان سے کہا، کہ ان کے ساتھیوں سے کہدو، کہ میں ان سے اس شخص کے حالات پوچھوں گا، جو بنی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اگر یہ جھوٹ کہیں تو تم ان کی تکذیب کردینا، ابوسفیان کہتے ہیں، اللہ کی قسم! اگر اس وقت اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ میرے ساتھی مجھے جھوٹا کہیں گے تو میں اپنی طرف سے بھی قیصر سے کچھ بیان کرتا، جبکہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت مجھ سے کچھ پوچھا تھا مگر مجھے اس بات کی غیرت آئی کہ لوگ مجھے جھوٹا کہیں گے، اس لئے میں نے بالکل سچ سچ بیان کردیا، اس کے بعد قیصر نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے پوچھو کہ یہ شخص جو تم لوگوں کے درمیان ہے اس کا نسب کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں بڑے نسب والے ہیں کہنے لگا کہ کیا اس سے پہلے تم میں سے کسی نے یہ بات کہی ہے؟ میں نے کہا نہیں، کہنے لگا کہ کیا قبل اس کے جو بات انہوں نے کہی ہے کیا تم نے ان کو جھوٹ بولتے سنا ہے؟ میں نے کہا نہیں، کہنے لگا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا؟ میں نے کہا نہیں، کہنے لگا کیا امیر لوگوں نے ان کی پیروی کی یا غریبوں نے؟ میں نے کہا امیروں نے نہیں بلکہ غریب لوگ ان پیروی کر رہے ہیں! پھر کہنے لگا، وہ لوگ روز بروز زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم؟ میں نے کہا زیادہ ہوتے جار ہے ہیں کہنے لگا پھر کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ناخوش ہو کر پھر بھی جاتا ہے؟ میں نے کہا نہیں، کہنے لگا کیا گا ہے وعدہ خلافی کرتے ہیں میں نے کہا، کبھی نہیں اور اب ہم ان کی طرف سے صلح کی مدت کے اختتام پر ہیں، ہمیں خوف ہے کہ وہ عہد شکنی کرینگے ابوسفیان نے کہا مجھے ایسی بات اپنی طرف سے داخل کرنے کا جس پر لوگ مجھے جھوٹا نہ کہہ سکیں سوا اس بات کے اور موقع نہیں ملا کہنے لگا کیا تم نے کبھی ان سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا ہاں! کہنے لگا، پھر تمہاری اور ان کی جنگ کس طرح رہی؟ میں نے کہا لڑائی تو ڈول کشی کی طرح ہے، کبھی وہ ہم پر غلبہ پا جاتے ہیں اور کبھی ہم نے ان پر کہنے لگا آخر وہ تم کو کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا وہ ہمیں صرف اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، ہمارے باپ دادا جن کی پرستش کرتے تھے، ان کی عبادت سے روک دیا ہے، ہمیں نماز، صدقہ ، پرہیز گاری، وعدہ وفائی اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں، جب میں یہ سب کچھ کہہ چکا، تو اس نے اپنے ترجمان سے کہا کہ ان سے کہو کہ میں نے تم سے ان کے نسب کی بابت پوچھا، تو تم نے کہا، وہ ذی نسب ہیں اور تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح بڑے درجہ کے بھیجے گئے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا ان سے پہلے یہ بات تم سے کسی نے کہی، تم نے کہا نہیں اگر ان سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ہوتی، تو میں کہہ دیتا کہ وہ ایسے شخص ہیں جو اس قول کی اقتداء کرتے ہیں، جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے، میں نے تم سے پوچھا، کہ کیا قبل اس کے کہ جو بات انہوں نے کہی ہے، تم ان کو جھوٹ کے ساتھ متھم جانتے تھے، تم نے کہا نہیں، پس میں سمجھ گیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگوں پر جھوٹ بولنا چھوڑ دیں، اور اللہ پر جھوٹ بولیں، اور میں نے تم سے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہے تم نے کہا نہیں میں کہتا ہوں کہ اگر ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہوتا تو وہ اس طریقہ سے اپنے باپ دادا کا ملک حاصل کرنا چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کیا سرمایہ داران کے پیرو ہیں یا غریب لوگ تم نے کہا کہ زیادہ ترغریب لوگوں نے ان کی اتباع کی ہے اور تمام پیغمبروں کی اتباع یہی لوگ کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم تو تم نے کہا وہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں ایمان کا یہی حال ہے کہ وہ عنقریب کامل ہوجائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کوئی شخص بعد اس کے کہ ان کے دین میں داخل ہو اس سے ناخوش ہو کر پھر بھی جاتا ہے؟ تم نے کہا نہیں، ایمان کا یہ ہی حال ہے جب اس کی بشاشت دلوں میں مل جاتی ہے تو پھر کوئی شخص اس سے خفا نہیں ہوتا اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ کبھی عہد شکنی کرتے ہیں تم نے کہا نہیں اسی طرح تمام رسول وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے یہ بھی پوچھا کہ کیا تم نے ان سے جنگ کی ہے اور انہوں نے تم سے جنگ ہے۔ تم نے کہا ہاں انہوں نے ایسا کیا ہے اور یہ کہ ہماری اور ان کی جنگ ڈول کی طرح رہتی ہے، کبھی وہ تم پر غالب آتے ہیں اور کبھی تم ان پر چھا جاتے ہو اسی طرح تمام پیغمبروں کی آزمائش کی جاتی ہے اور انجام کار سرخروئی اور عزت انہیں کیلئے ہے میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تم کو کس بات کا حکم دیتے ہیں تم نے کہا وہ ہمیں اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، وہ تمہیں ان چیزوں کی پرستش سے روکتے ہیں جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، اور وہ تم کو نماز، صدقہ، پرہیز گاری، ایفائے عہد اور ادائے امانت کا حکم دیتے ہیں اور یہی پیغمبر کی صفت ہے، میں جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ظاہر ہونے والے ہیں، مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ تم میں سے ہونگے جو کچھ تم کہتے ہوا اگر وہ سچ ہے تو عنقریب وہ میری اس جگہ کے مالک ہو جائیں گے، مجھے امید ہے کہ میں ان سے ملوں گا لیکن یہ بہت دور کی بات ہے اگر میں ان کے پاس ہوتا تو ان کے مقدس پیروں کو دھوتا ابوسفیان سے مروی ہے کہ قیصر نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوا کر پڑھایا، اس کا مضمون یہ ہے، بسم اللہ الرحمن الرحیم (یہ خط) اللہ کے بندے اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہرقل بادشاہ روم کے نام، سلام ہو اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے، اما بعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں اسلام لے آ تو بچ جائے گا اسلام لے آ، تو اللہ تم کو دوگنا ثواب دے گا، اگر اسلام سے انکار کرو گے تو تمہاری پوری قوم کا گناہ تم کو ہوگا۔ اے اہل کتاب تم ایک ایسی بات کی طرف آؤ، جو ہمارے تمہارے دونوں کے درمیان میں مشترک ہے، وہ یہ کہ ہم سب لوگ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، اور ہم میں سے کوئی شخص کسی مخلوق کو معبود نہ بنائے۔ پھر تم اگر اعراض کرو گے، تو گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں، ابوسفیان راوی ہیں کہ ہرقل نے اس خط کو پڑھوا کر سب کو سنایا۔ اہلیان دربار میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں، اور نتیجہ شور و شغب تک پہنچا، مہر شہر کا حاکم اور وزراء مملکت میں زور زور سے باتیں ہونے لگیں اور نہ معلوم کیا کیا اول فول بکتے رہے آخرکار ہم لوگوں کو دربار سے باہر نکال دیا گیا، چنانچہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر نکلا، میں نے ان سے تنہائی میں کہا، اب تو ابن ابی کبشہ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کام بہت بڑھ گیا، یہ روم کا بادشاہ جنگ میں ان سے ڈرتا ہے اور میں اپنے دل میں ذلت محسوس کرنے لگا، اور اس بات کا یقین ہوگیا کہ محمد کا دین عنقریب غالب آ جائے گا، یہاں تک کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کو پختہ کردیا۔
Narrated Abdullah bin Abbas:
Allah's Apostle wrote to Caesar and invited him to Islam and sent him his letter with Dihya Al-Kalbi whom Allah's Apostle ordered to hand it over to the Governor of Busra who would forward it to Caesar. Caesar as a sign of gratitude to Allah, had walked from Hims to Ilya (i.e. Jerusalem) when Allah had granted Him victory over the Persian forces. So, when the letter of Allah's Apostle reached Caesar, he said after reading t, 'Seek for me any one of his people! (Arabs of Quraish tribe) if present here, in order to ask him about Allah's Apostle. At that time Abu Sufyan bin Harb was in Sham with some men frown Quraish who had come (to Sham) as merchants during the truce that had been concluded between Allah's Apostle; and the infidels of Quraish. Abu Sufyan said, Caesar's messenger found us somewhere in Sham so he took me and my companions to Ilya and we were admitted into Ceasar's court to find him sitting in his royal court wearing a crown and surrounded by the senior dignitaries of the Byzantine. He said to his translator. 'Ask them who amongst them is a close relation to the man who claims to be a prophet." Abu Sufyan added, "I replied, 'I am the nearest relative to him.' He asked, 'What degree of relationship do you have with him?' I replied, 'He is my cousin,' and there was none of Bani Abu Manaf in the caravan except myself. Caesar said, 'Let him come nearer.' He then ordered that my companions stand behind me near my shoulder and said to his translator, 'Tell his companions that I am going to ask this man about the man who claims to be a prophet. If he tells a lie, they should contradict him immediately." Abu Sufyan added, "By Allah ! Had it not been shameful that my companions label me a liar, I would not have spoken the truth about him when he asked me. But I considered it shameful to be called a liar by my companions. So I told the truth. He then said to his translator, 'Ask him what kind of family does he belong to.' I replied, 'He belongs to a noble family amongst us.' He said, 'Have anybody else amongst you ever claimed the same before him? 'I replied, 'No.' He said, 'Had you ever blamed him for telling lies before he claimed what he claimed? ' I replied, 'No.' He said, 'Was anybody amongst his ancestors a king?' I replied, 'No.' He said, "Do the noble or the poor follow him?' I replied, 'It is the poor who follow him.' He said, 'Are they increasing or decreasing (day by day)?' I replied,' They are increasing.' He said, 'Does anybody amongst those who embrace his (the Prophet's) Religion become displeased and then discard his Religion?'. I replied, 'No. ' He said, 'Does he break his promises? I replied, 'No, but we are now at truce with him and we are afraid that he may betray us." Abu Sufyan added, "Other than the last sentence, I could not say anything against him. Caesar then asked, 'Have you ever had a war with him?' I replied, 'Yes.' He said, 'What was the outcome of your battles with him?' I replied, 'The result was unstable; sometimes he was victorious and sometimes we.' He said, 'What does he order you to do?' I said, 'He tells us to worship Allah alone, and not to worship others along with Him, and to leave all that our fore-fathers used to worship. He orders us to pray, give in charity, be chaste, keep promises and return what is entrusted to us.' When I had said that, Caesar said to his translator, 'Say to him: I ask you about his lineage and your reply was that he belonged to a noble family. In fact, all the apostles came from the noblest lineage of their nations. Then I questioned you whether anybody else amongst you had claimed such a thing, and your reply was in the negative. If the answer had been in the affirmative, I would have thought that this man was following a claim that had been said before him. When I asked you whether he was ever blamed for telling lies, your reply was in the negative, so I took it for granted that a person who did not tell a lie about (others) the people could never tell a lie about Allah. Then I asked you whether any of his ancestors was a king. Your reply was in the negative, and if it had been in the affirmative, I would have thought that this man wanted to take back his ancestral kingdom. When I asked you whether the rich or the poor people followed him, you replied that it was the poor who followed him. In fact, such are the followers of the apostles. Then I asked you whether his followers were increasing or decreasing. You replied that they were increasing. In fact, this is the result of true faith till it is complete (in all respects). I asked you whether there was anybody who, after embracing his religion, became displeased and discarded his religion; your reply was in the negative. In fact, this is the sign of true faith, for when its cheerfulness enters and mixes in the hearts completely, nobody will be displeased with it. I asked you whether he had ever broken his promise. You replied in the negative. And such are the apostles; they never break their promises. When I asked you whether you fought with him and he fought with you, you replied that he did, and that sometimes he was victorious and sometimes you. Indeed, such are the apostles; they are put to trials and the final victory is always theirs. Then I asked you what he ordered you. You replied that he ordered you to worship Allah alone and not to worship others along with Him, to leave all that your fore-fathers used to worship, to offer prayers, to speak the truth, to be chaste, to keep promises, and to return what is entrusted to you. These are really the qualities of a prophet who, I knew (from the previous Scriptures) would appear, but I did not know that he would be from amongst you. If what you say should be true, he will very soon occupy the earth under my feet, and if I knew that I would reach him definitely, I would go immediately to meet Him; and were I with him, then I would certainly wash his feet.' " Abu Sufyan added, "Caesar then asked for the letter of Allah's Apostle and it was read. Its contents were:–
"In the name of Allah, the most Beneficent, the most Merciful (This letter is) from Muhammad, the slave of Allah, and His Apostle, to Heraculius, the Ruler of the Byzantine. Peace be upon the followers of guidance. Now then, I invite you to Islam (i.e. surrender to Allah), embrace Islam and you will be safe; embrace Islam and Allah will bestow on you a double reward. But if you reject this invitation of Islam, you shall be responsible for misguiding the peasants (i.e. your nation). O people of the Scriptures! Come to a word common to you and us and you, that we worship. None but Allah, and that we associate nothing in worship with Him; and that none of us shall take others as Lords besides Allah. Then if they turn away, say: Bear witness that we are (they who have surrendered (unto Him)..(3.64)
Abu Sufyan added, "When Heraclius had finished his speech, there was a great hue and cry caused by the Byzantine Royalties surrounding him, and there was so much noise that I did not understand what they said. So, we were turned out of the court. When I went out with my companions and we were alone, I said to them, 'Verily, Ibn Abi Kabsha's (i.e. the Prophet's) affair has gained power. This is the King of Bani Al-Asfar fearing him." Abu Sufyan added, "By Allah, I remained low and was sure that his religion would be victorious till Allah converted me to Islam, though I disliked it "
