صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2124

تفسیر سورت تحریم! اے نبی کیوں اپنی بیویوں کی رضاء جوئی کے لئے اس چیز کو اپنے اوپر حرام کرتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لئے حلال کیا ہے اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

راوی: عبدالعزیز بن عبداللہ , سلیمان بن بلال , یحیی بن عبید بن حنین

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَی عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ أَنَّهُ قَالَ مَکَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ حَتَّی خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعْنَا وَکُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَی الْأَرَاکِ لِحَاجَةٍ لَهُ قَالَ فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّی فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْکَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ إِنْ کُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَکَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَکَ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَاسْأَلْنِي فَإِنْ کَانَ لِي عِلْمٌ خَبَّرْتُکَ بِهِ قَالَ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنْ کُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَائِ أَمْرًا حَتَّی أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَتَأَمَّرُهُ إِذْ قَالَتْ امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ کَذَا وَکَذَا قَالَ فَقُلْتُ لَهَا مَا لَکَ وَلِمَا هَا هُنَا وَفِيمَ تَکَلُّفُکِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ فَقَالَتْ لِي عَجَبًا لَکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَإِنَّ ابْنَتَکَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ رِدَائَهُ مَکَانَهُ حَتَّی دَخَلَ عَلَی حَفْصَةَ فَقَالَ لَهَا يَا بُنَيَّةُ إِنَّکِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَالَتْ حَفْصَةُ وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ فَقُلْتُ تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُکِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُنَيَّةُ لَا يَغُرَّنَّکِ هَذِهِ الَّتِي أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا حُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا يُرِيدُ عَائِشَةَ قَالَ ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّی دَخَلْتُ عَلَی أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَکَلَّمْتُهَا فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ عَجَبًا لَکَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ دَخَلْتَ فِي کُلِّ شَيْئٍ حَتَّی تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ فَأَخَذَتْنِي وَاللَّهِ أَخْذًا کَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا کُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَکَانَ لِي صَاحِبٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ وَإِذَا غَابَ کُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ وَنَحْنُ نَتَخَوَّفُ مَلِکًا مِنْ مُلُوکِ غَسَّانَ ذُکِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا فَقَدْ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَإِذَا صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ فَقَالَ افْتَحْ افْتَحْ فَقُلْتُ جَائَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ بَلْ أَشَدُّ مِنْ ذَلِکَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ فَقُلْتُ رَغَمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ فَأَخَذْتُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّی جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يَرْقَی عَلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَی رَأْسِ الدَّرَجَةِ فَقُلْتُ لَهُ قُلْ هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَذِنَ لِي قَالَ عُمَرُ فَقَصَصْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَعَلَی حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْئٌ وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُوبًا وَعِنْدَ رَأْسِهِ أَهَبٌ مُعَلَّقَةٌ فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِهِ فَبَکَيْتُ فَقَالَ مَا يُبْکِيکَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ کِسْرَی وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُونَ لَهُمْ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ

(آیت) تم اپنی بیویوں کی رضاء چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے۔
عبدالعزیز بن عبد اللہ، سلیمان بن بلال، یحیی بن عبید بن حنین سے روایت کرتے ہیں انہوں نے ابن عباس کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ میں ایک سال تک اس انتظار میں رہا کہ حضرت عمر بن خطاب سے ایک آیت کے متعلق پوچھوں لیکن میں ان کی ہیبت کے سبب سے ان سے نہ پوچھ سکا۔ یہاں تک کہ وہ حج کے ارادہ سے نکلے تو میں بھی ان کے ساتھ نکلا جب میں واپس ہوا اور ہم لوگ راستہ میں تھے تو وہ ایک پیلو کے درخت کے پاس رفع حاجت کے لئے گئے۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا حتیٰ کہ وہ فارغ ہوئے پھر میں ان کے ساتھ چلا تو میں نے کہا اے امیرالمومنین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں کون وہ دو عورتیں تھیں۔ جنہوں نے آپ کے متعلق اتفاق کرلیا تھا۔ انہوں نے کہا وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں ابن عباس کا بیان ہے کہ میں نے کہا اللہ کی قسم! میں ایک سال سے یہ ارادہ کر رہا تھا کہ اس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں لیکن آپ کے ڈر سے میں پوچھ نہ سکا انہوں نے کہا ایسا نہ کرو جس چیز کے متعلق تمہیں معلوم ہو کہ مجھے اس کا علم ہے تو مجھ سے پوچھ لو اگر مجھے علم ہوگا تو میں تمہیں ضرور بتلا دوں گا ابن عباس کا بیان ہے کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا بخدا! ہم جاہلیت کے زمانہ میں عورتوں کا کوئی حق نہ سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے ان کے حق میں نازل فرمایا جو نازل فرمایا اور ان کے لئے مقرر کیا جو کچھ مقرر کیا۔ حضرت عمر نے کہا کہ ایک دن جب کہ میں اپنے معاملہ میں کچھ سوچ رہا تھا تو اس وقت میری بیوی نے کہا کہ کاش تم اس طرح اور اس طرح کرتے میں نے اس سے کہا کہ تجھے کیا ہوا اور کیوں میرے معاملہ میں دخل دیتی ہے جو میں کرتا ہوں اس نے کہا کہ اے ابن خطاب! مجھے تم پر تعجب ہے تم نہیں چاہتے کہ تمہاری باتوں کا جواب دیا جائے حالانکہ تمہاری بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دیتی ہے یہاں تک کہ دن بھر آپ غصہ میں رہے یہ سن کر حضرت عمر ایک چادر لے کر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور کہا اے بیٹی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دیتی ہے۔ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا اللہ کی قسم! ہم آپ کی باتوں کا جواب دیتے ہیں میں نے کہا تو جان لے کہ میں تجھے اللہ کی سزا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غضب سے ڈراتا ہوں اے بیٹی! تجھے وہ دھوکہ میں نہ ڈال دے جس کو اس کے حسن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سبب مغرور کردیا ہے اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مراد تھیں حضرت عمر کا بیان ہے کہ پھر میں وہاں سے نکلا یہاں تک کہ قرابت کے سبب سے میں ام سلمہ کے پاس گیا میں نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ اے ابن خطاب! تم ہر چیز میں دخل دیتے ہو حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی بیویوں کے معاملہ میں بھی دخل دیتے ہو چنانچہ انہوں نے اس سختی سے میری گرفت کی کہ میرا غصہ جاتا رہا پھر میں ان کے ہاں سے باہر نکلا اور انصار میں سے میرا ایک دوست تھا جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس موجود نہ ہوتا تو وہ میرے پاس آکر حالت بیان کرتا اور جب وہ نہ ہوتا تو میں اس سے بیان کرتا اور اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کے حملہ کا خطرہ تھا ہم سے بیان کیا گیا کہ وہ ہم پر (حملہ کی غرض سے) روانہ ہو رہا ہے۔چنانچہ ہمارے سینے خوف سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک دن میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہنے لگا کہ دروازہ کھولو، دروازہ کھولو، دروازہ کھولو، میں نے پوچھا کیا غسانی آ گئے اس نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ سخت معاملہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی میں نے کہا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  اور حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ناک خاک آلود ہو پھر میں اپنے کپڑے لے کر روانہ ہوگیا حتیٰ کہ میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنے ایک بالا خانہ میں تھے جس پر چڑھنے کیلئے ایک زینہ لگا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ غلام سیڑھی کے سرے پر تھا میں نے اس سے کہا کہ جا کر کہہ کہ یہ عمر بن خطاب ہے چنانچہ مجھے اجازت ملی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے اندر پہنچ کر میں نے آپ سے یہ قصہ بیان کیا جب ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات بتائی تو آپ مسکرائے اس وقت آپ ایک بوریئے پر لیٹے ہوئے تھے آپ کے جسم اور بوریئے کے درمیان کچھ نہ تھا اور آپ کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری تھی اور پاؤں کے پاس مسلم کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کے پاس کچے چمڑے لٹکے تھے میں نے آپ کے پہلو میں بوریئے کا نشان دیکھا تو میں روپڑا آپ نے فرمایا تم کیوں روتے ہو میں نے کہا یا رسول اللہ قیصر و کسری تو اس طرح آرام میں گزارتے ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہو کر اس حالت میں؟ آپ نے فرمایا کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت ہو۔

Narrated Ibn Abbas:
For the whole year I had the desire to ask 'Umar bin Al-Khattab regarding the explanation of a Verse (in Surat Al-Tahrim) but I could not ask him because I respected him very much. When he went to perform the Hajj, I too went along with him. On our return, while we were still on the way home. 'Umar went aside to answer the call of nature by the Arak trees. I waited till he finished and then I proceeded with him and asked him. "O chief of the Believers! Who were the two wives of the Prophet who aided one another against him?" He said, "They were Hafsa and 'Aisha." Then I said to him, "By Allah, I wanted to ask you about this a year ago, but I could not do so owing to my respect for you." 'Umar said, "Do not refrain from asking me. If you think that I have knowledge (about a certain matter), ask me; and if I know (something about it), I will tell you." Then Umar added, "By Allah, in the Pre-lslamic Period of Ignorance we did not pay attention to women until Allah revealed regarding them what He revealed regarding them and assigned for them what He has assigned. Once while I was thinking over a certain matter, my wife said, "I recommend that you do so-and-so." I said to her, "What have you got to do with the is matter? Why do you poke your nose in a matter which I want to see fulfilled.?" She said, How strange you are, O son of Al-Khattab! You don't want to be argued with whereas your daughter, Hafsa surely, argues with Allah's Apostle so much that he remains angry for a full day!" 'Umar then reported; how he at once put on his outer garment and went to Hafsa and said to her, "O my daughter! Do you argue with Allah's Apostle so that he remains angry the whole day?" H. afsa said, "By Allah, we argue with him." 'Umar said, "Know that I warn you of Allah's punishment and the anger of Allah's Apostle . . . O my daughter! Don't be betrayed by the one who is proud of her beauty because of the love of Allah's Apostle for her (i.e. 'Aisha)." 'Umar addled, "Then I went out to Um Salama's house who was one of my relatives, and I talked to her. She said, O son of Al-Khattab! It is rather astonishing that you interfere in everything; you even want to interfere between Allah's Apostle and his wives!' By Allah, by her talk she influenced me so much that I lost some of my anger. I left her (and went home). At that time I had a friend from the Ansar who used to bring news (from the Prophet) in case of my absence, and I used to bring him the news if he was absent. In those days we were afraid of one of the kings of Ghassan tribe. We heard that he intended to move and attack us, so fear filled our hearts because of that. (One day) my Ansari friend unexpectedly knocked at my door, and said, "Open Open!' I said, 'Has the king of Ghassan come?' He said, 'No, but something worse; Allah's Apostle has isolated himself from his wives.' I said, 'Let the nose of 'Aisha and Hafsa be stuck to dust (i.e. humiliated)!' Then I put on my clothes and went to Allah's Apostle's residence, and behold, he was staying in an upper room of his to which he ascended by a ladder, and a black slave of Allah's Apostle was (sitting) on the first step. I said to him, 'Say (to the Prophet ) 'Umar bin Al-Khattab is here.' Then the Prophet admitted me and I narrated the story to Allah's Apostle. When I reached the story of Um Salama, Allah's Apostle smiled while he was lying on a mat made of palm tree leaves with nothing between him and the mat. Underneath his head there was a leather pillow stuffed with palm fibres, and leaves of a saut tree were piled at his feet, and above his head hung a few water skins. On seeing the marks of the mat imprinted on his side, I wept. He said.' 'Why are you weeping?' I replied, "O Allah's Apostle! Caesar and Khosrau are leading the life (i.e. Luxurious life) while you, Allah's Apostle though you are, is living in destitute". The Prophet then replied. 'Won't you be satisfied that they enjoy this world and we the Hereafter?' "

یہ حدیث شیئر کریں