باب (نیو انٹری)
راوی:
سُورَةُ الْحَاقَّةِ قَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ يُرِيدُ فِيهَا الرِّضَا الْقَاضِيَةَ الْمَوْتَةَ الْأُولَى الَّتِي مُتُّهَا لَمْ أُحْيَ بَعْدَهَا مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ أَحَدٌ يَكُونُ لِلْجَمْعِ وَلِلْوَاحِدِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْوَتِينَ نِيَاطُ الْقَلْبِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ طَغَى كَثُرَ وَيُقَالُ بِالطَّاغِيَةِ بِطُغْيَانِهِمْ وَيُقَالُ طَغَتْ عَلَى الْخَزَّانِ كَمَا طَغَى الْمَاءُ عَلَى قَوْمِ نُوحٍ
تفسیر سورةحاقہ
”عیشة راضیة “ ایسا عیش جس سے راضی ہو ”القاضیة “ پہلی موت ایسی ہوتی کہ اس کے بعد پھر قیامت میں زندہ نہ اٹھایا جاتا ”من احد عنہ حاجزین “ احد جمع اور واحد دونوں کے لئے بولا جاتا ہے اور ابن عباس نے کہا کہ ”وتین “سے مراد دل کی رگ ہے ابن عباس نے کہا کہ ” طغی “ بمعنے ”کثر “ زیادتی ہوگئی ‘ بالطافیتہ ‘بطغیانھم ‘ اور طغت علی خزان بولتے ہیں یعنی سر کشی کے سبب سے ہلاک کئے گئے ۔ جس طرح ”طغی المنار علی قوم نوح “ کہتے ہیں۔
