باب (نیو انٹری)
راوی:
سُورَةُ هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ يُقَالُ مَعْنَاهُ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ وَهَلْ تَكُونُ جَحْدًا وَتَكُونُ خَبَرًا وَهَذَا مِنْ الْخَبَرِ يَقُولُ كَانَ شَيْئًا فَلَمْ يَكُنْ مَذْكُورًا وَذَلِكَ مِنْ حِينِ خَلَقَهُ مِنْ طِينٍ إِلَى أَنْ يُنْفَخَ فِيهِ الرُّوحُ أَمْشَاجٍ الْأَخْلَاطُ مَاءُ الْمَرْأَةِ وَمَاءُ الرَّجُلِ الدَّمُ وَالْعَلَقَةُ وَيُقَالُ إِذَا خُلِطَ مَشِيجٌ كَقَوْلِكَ خَلِيطٌ وَمَمْشُوجٌ مِثْلُ مَخْلُوطٍ وَيُقَالُ سَلَاسِلًا وَأَغْلَالًا وَلَمْ يُجْرِ بَعْضُهُمْ مُسْتَطِيرًا مُمْتَدًّا الْبَلَاءُ وَالْقَمْطَرِيرُ الشَّدِيدُ يُقَالُ يَوْمٌ قَمْطَرِيرٌ وَيَوْمٌ قُمَاطِرٌ وَالْعَبُوسُ وَالْقَمْطَرِيرُ وَالْقُمَاطِرُ وَالْعَصِيبُ أَشَدُّ مَا يَكُونُ مِنْ الْأَيَّامِ فِي الْبَلَاءِ وَقَالَ الْحَسَنُ النُّضْرَةُ فِي الْوَجْهِ وَالسُّرُورُ فِي الْقَلْبِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْأَرَائِكِ السُّرُرُ وَقَالَ الْبَرَاءُ وَذُلِّلَتْ قُطُوفُهَا يَقْطِفُونَ كَيْفَ شَاءُوا وَقَالَ مَعْمَرٌ أَسْرَهُمْ شِدَّةُ الْخَلْقِ وَكُلُّ شَيْءٍ شَدَدْتَهُ مِنْ قَتَبٍ وَغَبِيطٍ فَهُوَ مَأْسُورٌ
تفسیر سورة دہر!
”ھل اتی علی الانسان“ (کیا انسان پر ایسا زمانہ گزرا ہے) یعنی گزر چکا ہے اور ”ھل“ کبھی انکار کے لئے اور کبھی خبر کے لئے مستعمل ہوتا ہے یہاں خبر کے لئے ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ایک چیز تو تھا لیکن قابل ذکر نہ تھا‘ یہ وقت مٹی سے پیدا کئے جانے سے لے کر اس میں روح پھونکے جانے کے وقت تک کا ہے‘ امشاج عورت کی منی کا مرد کی منی سے ملنا دم اور علقہ یعنی خون اور بستہ خون اور بعضوں کا قول ہے کہ جب وہ مل جائے تو وہ ”مشیج“ ہے جیسے ”خلیط“ بولتے ہیں اور ممشوج“ مخلوط کی طرح ہے او ر سلاسلا و اغلالا مستطیرا بڑی لمبی مصیبت والی قمطریر سخت چنانچہ یوم قمطریر اور ”یوم قماطر“ بولتے ہیں اور ”عبوس‘ قمطریر‘ قماطر‘ اور عصیب مصیبت کے سب سے زیادہ سخت دن کو کہتے ہیں معمر نے کہا کہ ”اسرھم“ سے مراد پیدائش کی مضبوطی اور ہر وہ چیز جس کو اونٹ کے پالان سے مضبوط کیا جاتا ہے ‘اس کو ”ماسور“ کہتے ہیں۔
