امام سے اجازت طلب کرنے کا بیان اللہ تعالیٰ کے اس قول کے موافق کہ مومن وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب کسی کام کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں تو اجازت حاصل کیے بغیر جاتے نہیں ہیں آخر آیت تک۔
راوی: اسحق جریر مغریرہ شعبی جابر بن عبد اللہ
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْمُغِيرَةِ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَتَلَاحَقَ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَی نَاضِحٍ لَنَا قَدْ أَعْيَا فَلَا يَکَادُ يَسِيرُ فَقَالَ لِي مَا لِبَعِيرِکَ قَالَ قُلْتُ عَيِيَ قَالَ فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيْ الْإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ فَقَالَ لِي کَيْفَ تَرَی بَعِيرَکَ قَالَ قُلْتُ بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَکَتُکَ قَالَ أَفَتَبِيعُنِيهِ قَالَ فَاسْتَحْيَيْتُ وَلَمْ يَکُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرُهُ قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَبِعْنِيهِ فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَی أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرهِ حَتَّی أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي عَرُوسٌ فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَی الْمَدِينَةِ حَتَّی أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيَنِي خَالِي فَسَأَلَنِي عَنْ الْبَعِيرِ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ فَلَامَنِي قَالَ وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ هَلْ تَزَوَّجْتَ بِکْرًا أَمْ ثَيِّبًا فَقُلْتُ تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا فَقَالَ هَلَّا تَزَوَّجْتَ بِکْرًا تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُکَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُوُفِّيَ وَالِدِي أَوْ اسْتُشْهِدَ وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارٌ فَکَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مِثْلَهُنَّ فَلَا تُؤَدِّبُهُنَّ وَلَا تَقُومُ عَلَيْهِنَّ فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُؤَدِّبَهُنَّ قَالَ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ عَلَيْهِ بِالْبَعِيرِ فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَيَّ قَالَ الْمُغِيرَةُ هَذَا فِي قَضَائِنَا حَسَنٌ لَا نَرَی بِهِ بَأْسًا
اسحاق جریر مغیرہ شعبی جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ میدان جنگ میں تھا اسی میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ملے اور میں اپنے پانی بھرنے والے اونٹ پر سوار تھا جو تھک گیا تھا اور چل نہیں رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تمہارے اونٹ کو کیا ہوگیا ہے میں نے عرض کیا وہ تھک گیا ہے تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبی رخ سے آکر اس کو ڈانٹا اور اس کے لئے دعا کی اور پھر آپ میرے اونٹ کے سامنے چلتے رہے اور فرمایا اب تمہارے اونٹ کا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا یہ تو بہتر ہوگیا ہے اور دراصل اس کو آپ کی برکت حاصل ہوگئی ہے فرمایا کہ تم اس کو میرے ہاتھ بیچو گے؟ تو میں شرمایا چونکہ میرے پاس پانی بھرنے کے لئے اور کوئی اونٹ نہیں تھا لیکن اسکے باوجود میں نے ہاں کہہ دی تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم اس کو بیچ ڈالو پھر میں نے اس کو اس شرط پر فروخت کردیا کہ مدینہ تک اس پر سواری کروں گا پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری حال میں شادی ہوئی ہے اور میں نے آپ سے اجازت طلب کی اور آپ نے مجھے اجازت دے دی، چنانچہ میں اپنے ساتھیوں سے پہلے ہی مدینہ پہنچ گیا اور سب سے پہلے مدینہ میں مجھے میرے ماموں ملے اور انہوں نے اسی اونٹ کا حال پوچھا تو سارا ماجرا میں نے ان کو کہہ دیا اور انہوں نے پورا واقعہ سن کر مجھے ملامت کی اور جس وقت میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے روانگی کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا کہ اے جابر تو نے کنواری سے شادی کی ہے یا شادی شدہ سے تو میں نے کہا شادی شدہ سے۔ جس پر آپ نے فرمایا تم نے کنواری سے شادی کی ہوتی تاکہ تم دونوں آپس میں کھیلتے میں نے کہا یا رسول اللہ! میرے والد نے وفات پائی یا شہید ہوئے اور میری چھوٹی بہنیں ہیں مجھے برا لگا کہ میں انہی کی طرح عورت سے شادی کروں جو نہ ان کو ادب سکھائے گی اور نہ ان کی خدمت کر سکے گی اس لئے میں نے ثیبہ سے شادی کرلی جو ان کی خدمت کرے اور ان کو سلیقہ مند بنائے اور پھر جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے تو دوسرے دن میں اپنا وہ اونٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے اس کی قیمت مجھے عنایت فرمائی اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس کردیا مغیرہ کہتے ہیں کہ ہماری رائے میں یہ بیع بہت اچھی ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
Narrated Jabir bin 'Abdullah:
I participated in a Ghazwa along with Allah's Apostle The Prophet met me (on the way) while I was riding a camel of ours used for irrigation and it had got so tired that it could hardly walk. The Prophet asked me, "What is wrong with the camel?" I replied, "It has got tired." So. Allah's Apostle came from behind it and rebuked it and prayed for it so it started surpassing the other camels and going ahead of them. Then he asked me, "How do you find your camel (now)?" I replied, "I find it quite well, now as it has received your blessings." He said, "Will you sell it to me?" I felt shy (to refuse his offer) though it was the only camel for irrigation we had. So, I said, "Yes." He said, "Sell it to me then." I sold it to him on the condition that I should keep on riding it till I reached Medina. Then I said, "O Allah's Apostle! I am a bridegroom," and requested him to allow me to go home. He allowed me, and I set out for Medina before the people till I reached Medina, where I met my uncle, who asked me about the camel and I informed him all about it and he blamed me for that. When I took the permission of Allah's Apostle he asked me whether I had married a virgin or a matron and I replied that I had married a matron. He said, "Why hadn't you married a virgin who would have played with you, and you would have played with her?" I replied, "O Allah's Apostle! My father died (or was martyred) and I have some young sisters, so I felt it not proper that I should marry a young girl like them who would neither teach them manners nor serve them. So, I have married a matron so that she may serve them and teach them manners." When Allah's Apostle arrived in Medina, I took the camel to him the next morning and he gave me its price and gave me the camel itself as well.
