صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ وصیتوں کا بیان ۔ حدیث 30

باب (نیو انٹری)

راوی:

بَاب إِذَا قَالَ دَارِي صَدَقَةٌ لِلَّهِ وَلَمْ يُبَيِّنْ لِلْفُقَرَاءِ أَوْ غَيْرِهِمْ فَهُوَ جَائِزٌ وَيَضَعُهَا فِي الْأَقْرَبِينَ أَوْ حَيْثُ أَرَادَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ حِينَ قَالَ أَحَبُّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ فَأَجَازَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ وَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا يَجُوزُ حَتَّى يُبَيِّنَ لِمَنْ وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ

انسان کا اپنا گھر ﷲ کے لئے صدقہ میں الفاظ کی ادائیگی کا بیان اگرچہ یہ نہ کہے کہ فقیروں کے لئے ہے یا کسی اور کیلئے ہے، (۱) تو یہ قول جائز ہے اور وہ اس کو اپنے اعزہ میں یا جہاں چاہے تقسیم کر دے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ سے فرمایا جب کہ انہوں نے عرض کیا تھا، کہ مجھے اپنے مالوں میں سب سے زیادہ پسند بیرحا نامی باغ ہے اور وہ ﷲ کیلئے صدقہ ہے پس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائزہ رکھا ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا وقف نا جائز ہے ، جب تک بیان نہ کر دے، کہ کس کیلئے وقف کر تا ہے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے

یہ حدیث شیئر کریں