صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ جہاد اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ حدیث 311

کیا آدمی اپنے آپ کو گرفتار کرا دے اور وہ جو اپنے آپ کو گرفتار نہ کرائے اور قتل ہوتے وقت دو رکعت نماز پڑھنے کا بیان

راوی: ابو الیمان شعیب زہری عمرو بن ابی سفیان حلیف بنو زہرہ اور دوست ابوہریرہ ابوہریرہ

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي زُهْرَةَ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ رَهْطٍ سَرِيَّةً عَيْنًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَانْطَلَقُوا حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالْهَدَأَةِ وَهُوَ بَيْنَ عُسْفَانَ وَمَکَّةَ ذُکِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو لَحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ قَرِيبًا مِنْ مِائَتَيْ رَجُلٍ کُلُّهُمْ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّی وَجَدُوا مَأْکَلَهُمْ تَمْرًا تَزَوَّدُوهُ مِنْ الْمَدِينَةِ فَقَالُوا هَذَا تَمْرُ يَثْرِبَ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ فَلَمَّا رَآهُمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَی فَدْفَدٍ وَأَحَاطَ بِهِمْ الْقَوْمُ فَقَالُوا لَهُمْ انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَيْدِيکُمْ وَلَکُمْ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ وَلَا نَقْتُلُ مِنْکُمْ أَحَدًا قَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِيرُ السَّرِيَّةِ أَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ لَا أَنْزِلُ الْيَوْمَ فِي ذِمَّةِ کَافِرٍ اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّکَ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةٍ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ بِالْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ الْأَنْصَارِيُّ وَابْنُ دَثِنَةَ وَرَجُلٌ آخَرُ فَلَمَّا اسْتَمْکَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَأَوْثَقُوهُمْ فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُکُمْ إِنَّ لِي فِي هَؤُلَائِ لَأُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَی فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَی أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَأَبَی فَقَتَلُوهُ فَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ وَابْنِ دَثِنَةَ حَتَّی بَاعُوهُمَا بِمَکَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ خُبَيْبًا بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَکَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ أَنَّ بِنْتَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَی يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ فَأَخَذَ ابْنًا لِي وَأَنَا غَافِلَةٌ حِينَ أَتَاهُ قَالَتْ فَوَجَدْتُهُ مُجْلِسَهُ عَلَی فَخِذِهِ وَالْمُوسَی بِيَدِهِ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فِي وَجْهِي فَقَالَ تَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِکَ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْکُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ فِي يَدِهِ وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ وَمَا بِمَکَّةَ مِنْ ثَمَرٍ وَکَانَتْ تَقُولُ إِنَّهُ لَرِزْقٌ مِنْ اللَّهِ رَزَقَهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا خَرَجُوا مِنْ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ ذَرُونِي أَرْکَعْ رَکْعَتَيْنِ فَتَرَکُوهُ فَرَکَعَ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ لَوْلَا أَنْ تَظُنُّوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَطَوَّلْتُهَا اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا مَا أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَی أَيِّ شِقٍّ کَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِکَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِکْ عَلَی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ فَقَتَلَهُ ابْنُ الْحَارِثِ فَکَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ الرَّکْعَتَيْنِ لِکُلِّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ يَوْمَ أُصِيبَ فَأَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ خَبَرَهُمْ وَمَا أُصِيبُوا وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ کُفَّارِ قُرَيْشٍ إِلَی عَاصِمٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ لِيُؤْتَوْا بِشَيْئٍ مِنْهُ يُعْرَفُ وَکَانَ قَدْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَبُعِثَ عَلَی عَاصِمٍ مِثْلُ الظُّلَّةِ مِنْ الدَّبْرِ فَحَمَتْهُ مِنْ رَسُولِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَی أَنْ يَقْطَعَ مِنْ لَحْمِهِ شَيْئًا

ابو الیمان شعیب زہری عمرو بن ابی سفیان حلیف بنو زہرہ اور دوست ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آدمیوں کا جاسوسی کا گروپ بنایا اور اس پر عاصم بن ثابت انصاری کو جو عاصم بن عمر کے دادا تھے سردار بنا کر روانہ کیا جب یہ لوگ مکہ اور عسفان کے درمیان مقام ہداۃ میں پہنچے تو بنو ہذیل کے ایک قبیلہ بنو لحیان کو ان کی خبر مل گئی جنہوں نے ان کے مقابلہ کے لئے تقریبا دو سو آدمیوں کو روانہ کیا جو سب کے سب ماہر تیر انداز تھے اور ان کے پاؤں کے نشانات پر چلے یہاں تک کہ انہوں نے ان کے کھائے ہوئے چھوہارے جو زاد راہ کے طور پر یہ لوگ مدینہ سے لائے تھے دیکھ کر کہا یہ مدینہ کے چھوہارے ہیں اور جب ان لوگوں نے عاصم اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ لیا تو یہ لوگ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور ان کو قبیلہ بنو لحیان والوں نے گھیر لیا اور ان سے کہا کہ پہاڑ سے اتر آؤ اور اپنا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں دو اور ہمارا یہ عہد و پیمان ہے کہ ہم تم میں سے کسی کو قتل نہیں کریں گے جس پر عاصم بن ثابت سردار لشکر نے کہا اللہ کی قسم! میں تو کسی کافر کی امان میں نہیں اتروں گا اور اے اللہ! تو ہماری خبر اپنے رسول پاک دے دے پھر انہوں نے تیراندازی کرکے عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا جو کہ سات آدمیوں میں سے ایک تھے پھر تین آدمی وعدہ لے کر اتر گئے خبیب انصاری ابن دثنہ اور ایک تیسرا آدمی جب انہوں نے ان پر قدرت پائی تو ان لوگوں نے کمانوں کی تانت سے ان کو باندھ لیا ان میں سے تیسرے آدمی نے کہا کہ یہ پہلی بے وفائی ہے اور وعدہ خلافی ہے اور اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا بیشک میں اپنے ساتھیوں کی طرح ہونا چاہتا ہوں پھر سب لوگوں نے اس کو کھینچا اور اس بات پر مجبور کیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ رہیں مگر انہوں نے نہ مانا اور ان کافروں نے ان کو وہیں شہید کردیا اور خبیب و ابن دثنہ کو لے جا کر مکہ میں بیچ ڈالا یہ واقعہ جنگ بدر کے بعد معرض ظہور میں آیا خبیب کو حارث بن نوفل بن عبد مناف کے بیٹوں نے مول لے لیا اور خبیب نے حارث بن عامر کو بدر کے دن مار ڈالا تھا اور خبیب ان لوگوں کے پاس قید و بند میں رہے زہری نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے اطلاع دی کہ حارث کی بیٹی نے مجھے خبر دی جب وہ لوگ ان کے قتل کے لئے جمع ہوئے تو انہوں نے حارث کی بیٹی سے استرا مانگا تاکہ زیر ناف کی صفائی کرلیں چنانچہ اس نے اس کو استرا دے دیا اور میرے ایک بچہ کو بٹھا لیا اور میں غفلت میں تھی کہ کہ میرا بچہ ان کے پاس چلا گیا وہ کہتی ہیں کہ پھر میں نے خبیب کے زانو پر اپنے بچہ کو بیٹھا دیکھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا تو میں دیکھ کر گھبرا گئی اور میرے ہوش و حو اس ٹھکانے نہ رہے خبیب نے میرے چہرے سے پہچان لیا اور کہا کیا تم اس بات سے ڈر رہی ہو کہ میں اس بچہ کو مار ڈالوں گا میں تو ہرگز ایسا نہیں کروں گا حارث کی بیٹی نے کہا اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا اور اللہ کی قسم! میں نے تو ایک دن یہ دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ انگور کھارہا تھا دراں حالیکہ وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور اس وقت مکہ میں کوئی میوہ نہیں تھا اور وہ کہتی ہیں کہ یہ رزق من جانب اللہ نازل ہوا تھا جو اس نے خبیب کو دیا تھا پھر جب وہ لوگ حرم سے باہر چلے گئے تاکہ ان کو حرم کے باہر قتل کردیں تو خبیب نے ان سے کہا کہ مجھے اتنی مہلت دے دو کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں اور انہوں نے ان کو چھوڑ دیا اور خبیب دو رکعت نماز سے فارغ ہو کر کہنے لگا کہ اگر تم کو یہ خیال نہ ہوتا کہ مجھے قتل کا خوف ہے تو ایک بہت لمبی نماز پڑھتا اور اے اللہ! ان کافروں کو گن گن کر مار (اور پھر کہا) مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ میں حالت اسلام میں شہید کیا جا رہا ہوں جس پہلو پر بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں پچھاڑا جاؤں اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اگر وہ چاہے تو کٹے ہوئے اعضاء کے ٹکڑوں میں برکت دے دے۔ پھر ان کو ابن حارث نے قتل کردیا اور خبیب ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ہر مرد مسلمان کے لئے جو قید کرکے قتل کیا جائے دو رکعت نماز مسنون کردی ہے اور اللہ تعالیٰ نے عاصم بن ثابت کی وہ دعا جس دن وہ شہید کئے گئے سن لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی خبر پہنچا دی اس کے بعد سرور کائنات نے اپنے اصحاب سے ان کی خبر بیان کی اور جو کچھ ان پر گزرا اس کا اظہار فرمایا اور کفار قریش نے حضرت عاصم کی نعش مبارک کے پاس کچھ آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کچھ حصہ کاٹ کر لے جائیں جس سے ان کی وفات کی صداقت ہو سکے اور جناب عاصم نے بدر کے دن کفار قریش کے ایک سردار کو قتل کردیا تھا مگر عاصم کی نعش پر بھڑیں بادلوں کی طرح اللہ نے پیچھے سے مقرر فرمائیں جنہوں نے عاصم کی نعش کو ان کافروں کے بھیجے ہوئے آدمیوں سے بچا لیا اور وہ اس بات پر قادر نہ ہو سکے کہ آپ کی نعش مبارک سے کوئی ٹکڑا کاٹ سکیں۔

Narrated Abu Huraira:
Allah's Apostle sent a Sariya of ten men as spies under the leadership of 'Asim bin Thabit al-Ansari, the grandfather of 'Asim bin Umar Al-Khattab. They proceeded till they reached Hadaa, a place between 'Usfan, and Mecca, and their news reached a branch of the tribe of Hudhail called Bani Lihyan. About two-hundred men, who were all archers, hurried to follow their tracks till they found the place where they had eaten dates they had brought with them from Medina. They said, "These are the dates of Yathrib (i.e. Medina), "and continued following their tracks When 'Asim and his companions saw their pursuers, they went up a high place and the infidels circled them. The infidels said to them, "Come down and surrender, and we promise and guarantee you that we will not kill any one of you" 'Asim bin Thabit; the leader of the Sariya said, "By Allah! I will not come down to be under the protection of infidels. O Allah! Convey our news to Your Prophet. Then the infidels threw arrows at them till they martyred 'Asim along with six other men, and three men came down accepting their promise and convention, and they were Khubaib-al-Ansari and Ibn Dathina and another man So, when the infidels captured them, they undid the strings of their bows and tied them. Then the third (of the captives) said, "This is the first betrayal. By Allah! I will not go with you. No doubt these, namely the martyred, have set a good example to us." So, they dragged him and tried to compel him to accompany them, but as he refused, they killed him. They took Khubaid and Ibn Dathina with them and sold them (as slaves) in Mecca (and all that took place) after the battle of Badr. Khubaib was bought by the sons of Al-Harith bin 'Amir bin Naufal bin 'Abd Manaf. It was Khubaib who had killed Al-Harith bin 'Amir on the day (of the battle of) Badr. So, Khubaib remained a prisoner with those people.
Narrated Az-Zuhri: 'Ubaidullah bin 'Iyyad said that the daughter of Al-Harith had told him, "When those people gathered (to kill Khubaib) he borrowed a razor from me to shave his pubes and I gave it to him. Then he took a son of mine while I was unaware when he came upon him. I saw him placing my son on his thigh and the razor was in his hand. I got scared so much that Khubaib noticed the agitation on my face and said, 'Are you afraid that I will kill him? No, I will never do so.' By Allah, I never saw a prisoner better than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating of a bunch of grapes in his hand while he was chained in irons, and there was no fruit at that time in Mecca." The daughter of Al-Harith used to say, "It was a boon Allah bestowed upon Khubaib." When they took him out of the Sanctuary (of Mecca) to kill him outside its boundaries, Khubaib requested them to let him offer two Rakat (prayer). They allowed him and he offered Two Rakat and then said, "Hadn't I been afraid that you would think that I was afraid (of being killed), I would have prolonged the prayer. O Allah, kill them all with no exception." (He then recited the poetic verse):– "I being martyred as a Muslim, Do not mind how I am killed in Allah's Cause, For my killing is for Allah's Sake, And if Allah wishes, He will bless the amputated parts of a torn body" Then the son of Al Harith killed him. So, it was Khubaib who set the tradition for any Muslim sentenced to death in captivity, to offer a two-Rak'at prayer (before being killed). Allah fulfilled the invocation of Asim bin Thabit on that very day on which he was martyred. The Prophet informed his companions of their news and what had happened to them. Later on when some infidels from Quraish were informed that Asim had been killed, they sent some people to fetch a part of his body (i.e. his head) by which he would be recognized. (That was because) 'Asim had killed one of their chiefs on the day (of the battle) of Badr. So, a swarm of wasps, resembling a shady cloud, were sent to hover over Asim and protect him from their messenger and thus they could not cut off anything from his flesh.

یہ حدیث شیئر کریں