مسلمانوں کی ضرورت کے لئے خمس ثابت ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ بنو ہوازن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے اسباب و سامان کی واپسی کی استدعا کی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعت بنو ہوازن میں ہوئی تھی اور آپ نے دوسرے مسلمانوں کے برابر ان کے بھی حصے لگائے اور آپ وعدہ فرمایا کرتے تھے کہ فئے انفال کے پانچویں حصہ میں سے ان کو بھی دینگے اور آپ نے انصار کو دیا اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خیبر کے چھوارے عنایت فرمائے۔
راوی: سعید بن عفیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ مروان بن حکم و مسور بن مخرمہ
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ وَزَعَمَ عُرْوَةُ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَکَمِ وَمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حِينَ جَائَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدْ کُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ وَقَدْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَ آخِرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَی الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَکُمْ هَؤُلَائِ قَدْ جَائُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُطَيِّبَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْکُمْ أَنْ يَکُونَ عَلَی حَظِّهِ حَتَّی نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيئُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْکُمْ فِي ذَلِکَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّی يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُکُمْ أَمْرَکُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَکَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ
سعید بن عفیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ مروان بن حکم و مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بنو ہوازن مسلمان ہو کر آئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استدعا کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قیدی اور ان کا مال و اسباب ان کو واپس کردیں تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے وہی بات پسند ہے جو بالکل سچی ہے تم ایک چیز اختیار کرلو مال یا قیدی اور میں نے صرف تمہاری وجہ سے تقسیم میں تاخیر کی ہے اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طائف سے واپسی کے بعد کچھ اوپر دس راتوں تک ان کے آخری جواب کا انتظار کیا جب ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف ایک ہی چیز انہیں واپس دیں گے تو انہوں نے کہا ہم اپنے قیدی مانگتے ہیں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے مجمع میں اللہ تعالیٰ کی تعریف کی جس کا وہ سزاوار ہے اور اس کے بعد فرمایا اے مسلمانو! تمہارے یہ بھائی شرک سے توبہ کرکے ہمارے پاس آئے ہیں اور میں مناسب خیال کرتا ہوں کہ ان کے قیدی ان کو واپس دے دوں لہذا جو شخص پاکیزگی کو دوست رکھتا ہے اس کو یہ کام کر ڈالنا چاہیے اور جو شخص اپنے حصہ پر قائم رہنا چاہتا ہے تو وہ بھی اپنے حصہ کا قیدی ان کو دے دے اور ایسے شخص کو ہم اس کے حصہ کے بدلے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ہم کو جو نیا مال عنایت کرے گا اس کا حصہ ادا کریں گے یہ سن کر سب لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم ان لوگوں کو ان کے قیدی اپنا اپنا حصہ لئے بغیر ہی دیناپسند کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اس کی اجازت دی اور کس نے اجازت نہیں دی لہذا مناسب یہ ہے کہ تم سب واپس چلے جاؤ اور تمہارے سردار تمہارے امور کی نیابت کریں تو سب لوگوں نے لوٹ کر اپنے سرداروں سے بات کی اور پھر سرداروں کے مندوب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع کیا کہ سب لوگ بخوشی دے رہے ہیں اور ہوازن کے قیدیوں کی بابت یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے۔
Narrated Marwan bin Al-Hakim and Miswar bin Makhrama:
When the Hawazin delegation came to Allah's Apostle after they had embraced Islam and requested him to return their properties and war prisoners to them, Allah's Apostle said, "To me the best talk is the truest, so you may choose either of two things; the war prisoners or the wealth, for I have delayed their distribution." Allah's Apostle had waited for them for over ten days when he returned from Ta'if. So, when those people came to know that Allah's Apostle was not going to return to them except one of the two things the said, "We choose our war Prisoners 'Allah's Apostle stood up amongst the Muslims, and after glorifying Allah as He deserved, he said, "Now then, these brothers of yours have come to us with repentance, and I see it logical that I should return their captives to them, so whoever of you likes to do that as a favor then he can do it, and whoever amongst you likes to stick to his share, let him give up his prisoners and we will compensate him from the very first Fai' (i.e. war booty received without fight) which Allah will give us." On that, all the people said. 'O Allah's Apostles We have agreed willingly to do so (return the captives)" Then Allah's Apostle said to them "I do not know who amongst you has agreed to this and who has not. You should return and let your leaders inform me of your agreement." The people returned and their leaders spoke to them, and then came to Allah's Apostle and said, "All the people have agreed willingly to do so and have given the permission to return the war prisoners (without Compensation)" (Az-Zuhri, the sub-narrator states) This is what has been related to us about the captives of Hawazin.
