صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ ادب کا بیان ۔ حدیث 1159

مشرک کی کنیت رکھنے کا بیان اور مسورنے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا مگر یہ کہ ابن ابی طالب چاہے ( یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

راوی: ابو الیمان شعب زہری برادر اسمٰعیل سلیمان محمد بن ابی عتیق ابن شہاب عروہ بن زبیر

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ ح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَکِبَ عَلَی حِمَارٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ فَدَکِيَّةٌ وَأُسَامَةُ وَرَائَهُ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي حَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَسَارَا حَتَّی مَرَّا بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ فَإِذَا فِي الْمَجْلِسِ أَخْلَاطٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِکِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ وَفِي الْمُسْلِمِينَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَلَمَّا غَشِيَتْ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ ابْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ وَقَالَ لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَی اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمْ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ أَيُّهَا الْمَرْئُ لَا أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ إِنْ کَانَ حَقًّا فَلَا تُؤْذِنَا بِهِ فِي مَجَالِسِنَا فَمَنْ جَائَکَ فَاقْصُصْ عَلَيْهِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ بَلَی يَا رَسُولَ اللَّهِ فَاغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِکَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّی کَادُوا يَتَثَاوَرُونَ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّی سَکَتُوا ثُمَّ رَکِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ فَسَارَ حَتَّی دَخَلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْ سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ کَذَا وَکَذَا فَقَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ اعْفُ عَنْهُ وَاصْفَحْ فَوَالَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْکَ الْکِتَابَ لَقَدْ جَائَ اللَّهُ بِالْحَقِّ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْکَ وَلَقَدْ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبَحْرَةِ عَلَی أَنْ يُتَوِّجُوهُ وَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاکَ شَرِقَ بِذَلِکَ فَذَلِکَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعَفَا عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ يَعْفُونَ عَنْ الْمُشْرِکِينَ وَأَهْلِ الْکِتَابِ کَمَا أَمَرَهُمْ اللَّهُ وَيَصْبِرُونَ عَلَی الْأَذَی قَالَ اللَّهُ تَعَالَی وَلَتَسْمَعُنَّ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ الْآيَةَ وَقَالَ وَدَّ کَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ فَکَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَأَوَّلُ فِي الْعَفْوِ عَنْهُمْ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ بِهِ حَتَّی أَذِنَ لَهُ فِيهِمْ فَلَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا فَقَتَلَ اللَّهُ بِهَا مَنْ قَتَلَ مِنْ صَنَادِيدِ الْکُفَّارِ وَسَادَةِ قُرَيْشٍ فَقَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مَنْصُورِينَ غَانِمِينَ مَعَهُمْ أُسَارَی مِنْ صَنَادِيدِ الْکُفَّارِ وَسَادَةِ قُرَيْشٍ قَالَ ابْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ الْمُشْرِکِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ فَبَايِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی الْإِسْلَامِ فَأَسْلَمُوا

ابو الیمان شعب زہری برادر اسماعیل سلیمان محمد بن ابی عتیق ابن شہاب عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک گدھے پر سوار تھے جس پر فدک کی بن ہوئی ایک چادر تھی اور اسامہ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے جنگ بدر سے پہلے بن حارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عیادت کرنے جا رہے تھے دونوں چلے جا رہے تھے ایک مجلس کے پاس سے گزر ہو۔ جس میں عبداللہ بن ابی سلول بھی تھا اور یہ عبداللہ بن ابی کے مسلمان ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے اور اس مجلس میں مسلمان اور بت پرست مشرکین اور یہود موجود تھے اور مسلمانوں میں سے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جب سواری کے چلنے سے گردان لوگوں پر اڑ کر گئی تو ابن ابی نے اپنی ناک کو چادر سے چھپاتے ہوئے کہا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو سلام کیا اور سواری روک کر وہیں اتر پڑے پھر ان کو اللہ کی طرف بلایا اور ان کو قرآن پڑھ کر سنایا عبداللہ بن ابی بن سلول نے آپ سے کہا کہ اے آدمی تو جو کہتا ہے مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا اگر یہ حق ہے تو ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو جو تمہارے پاس جائے اس سے بیان کیا کرو عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری مجلسوں میں آیا کیجئے ہم اس کو زیادہ پسند کرتے ہیں مسلمان مشرکین اور یہودیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور قریب تھا کہ جھگڑا ہوجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کو خاموش کرنے لگے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو گئے اور چلتے رہے یہاں تک کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے سعد کیا تم نے نہیں سنا جو ابوحباب یعنی عبداللہ بن ابی نے کہا اس نے ایسی ایسی بات کہی سعد بن عبادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو معاف کردیجئے اور اس سے درگزر کیجئے قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر کتاب نازل کی قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا اس شہر کے لوگوں نے صلاح کی تھی کہ اس کو تاج پہنائیں گے اور اس کو بادشاہ بنائیں گے جب اللہ نے اس کو اس حق کے ذریعہ جو آپ کو دیا ہے رد کردیا تو وہ اس کی وجہ سے چمک گیا (یعنی جل گیا) چنانچہ اس نے یہ حرکت کی جو آپ نے دیکھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو معاف کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب مشرکین اور اہل کتاب کو معاف کردیتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا اور تکلیف پر صبر کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَلَتَسْمَعُنَّ مِنْ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ودکثیر من اھل الکتاب چنانچہ آپ اللہ کے حکم کے مطابق ان کو برابر معاف کرتے رہے یہاں تک کہ جہاد کا حکم دیا گیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر میں جنگ کی تو اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کے ذریعے بہت سے بڑے بڑے کفار اور سردار ان قریش کو قتل کرا دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کامیاب اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے ان کے ساتھ بڑے بڑے کفار اور سردار ان قریش قید ہو کر آئے ابن ابی سلول نے اور اس کے بت پرست مشرک ساتھیوں نے کہا کہ یہ امر (یعنی اسلام) غالب آگیا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسلام پر بیعت کرلو چنانچہ وہ سب لوگ (بظاہر) مسلمان ہوگئے۔

Narrated Usama bin Zaid:
That Allah's Apostle rode over a donkey covered with a Fadakiya (velvet sheet) and Usama was riding behind him. He was visiting Sa'd bin 'Ubada (who was sick) in the dwelling place of Bani Al-Harith bin Al-Khazraj and this incident happened before the battle of Badr. They proceeded till they passed by a gathering in which 'Abdullah bin Ubai bin Salul was present., and that was before 'Abdullah bin Ubat embraced Islam. In that gathering there were Muslims, pagan idolators and Jews, and among the Muslims there was 'Abdullah bin Rawaha.
When a cloud of dust raised by (the movement of ) the animal covered that gathering, 'Abdullah bin Ubai covered his nose with his garment and said, "Do not cover us with dust." Allah's Apostle greeted them, stopped, dismounted and invited them to Allah (i.e. to embrace Islam) and recited to them the Holy Qur'an. On that 'Abdullah bin Ubai bin Salul said to him, "O man! There is nothing better than what you say, if it is the truth. So do not trouble us with it in our gatherings, but if somebody comes to you, you can preach to him." On that 'Abdullah bin Rawaha said "Yes, O Allah's Apostle! Call on us in our gathering, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started abusing one another till they were about to fight with one another. Allah's Apostle kept on quietening them till all of them became quiet, and then Allah's Apostle rode his animal and proceeded till he entered upon Sa'd bin 'Ubada. Allah's Apostle said, "O Sa'd! Didn't you hear what Abu Habab said?" (meaning 'Abdullah bin Unbar). "He said so-and-so." Sa'd bin Ubada said, "O Allah's Apostle! Let my father be sacrificed for you ! Excuse and forgive him for, by Him Who revealed to you the Book, Allah sent the Truth which was revealed to you at the time when the people of this town had decided to crown him ('Abdullah bin Ubai) as their ruler.
So when Allah had prevented that with the Truth He had given you, he was choked by that, and that caused him to behave in such an impolite manner which you had noticed." So Allah's Apostle excused him. (It was the custom of) Allah's Apostle and his companions to excuse the pagans and the people of the scripture (Christians and Jews) as Allah ordered them, and they used to be patient when annoyed (by them). Allah said: 'You shall certainly hear much that will grieve you from those who received the Scripture before you…..and from the pagans (3.186)
He also said: 'Many of the people of the scripture wish that if they could turn you away as disbelievers after you have believed. …. (2.109) So Allah's Apostle used to apply what Allah had ordered him by excusing them till he was allowed to fight against them. When Allah's Apostle had fought the battle of Badr and Allah killed whomever He killed among the chiefs of the infidels and the nobles of Quraish, and Allah's Apostle and his companions had returned with victory and booty, bringing with them some of the chiefs of the infidels and the nobles of the Quraish as captives. 'Abdullah bin Ubai bin Salul and the pagan idolators who were with him, said, "This matter (Islam) has now brought out its face (triumphed), so give Allah's Apostle the pledge of allegiance (for embracing Islam.)". Then they became Muslims.

یہ حدیث شیئر کریں