صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ خواب کی تعبیر کا بیان ۔ حدیث 1920

قیدیوں ، مفسدوں اور مشرکوں کے خواب دیکھنے کا بیان اس لئے کہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت یوسف کے ساتھ دو غلام بھی جیل خانہ میں داخل ہوئے ایک نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں اپنے آپ کو اس طرح دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں لئے جاتاہوں اور پرندے اس سے کھاتے ہیں ، ہم کو اس کی تعبیر بتائیں ۔آپ ہم کو نیک معلوم ہوتے ہیں یوسف نے فرمایا کہ جو کھانا تمہارے پاس آتاہے جسے تم کھاتے ہو میں اس کے آنے سے پہلے تم کو اس کی حقیقت بتادوں گا اور یہ بتادینا اس علم کی بدولت ہے جو میرے رب نے دیاہے ، میں نے ان کی ملت چھوڑ دی جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں ، اور میں اپنے باپ دادا کی ملت کا تابع ہوں ، ابراہیم، اسحق، اور یعقوب کا، ہم کو زیبا نہیں کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں یہ ہم پر اور لوگوں پر خدا کا ایک فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ، اے قید خانہ کے رفیقو، کیا متفرق معبود اچھے ہیں یا ایک معبود برحق جو سب سے زبردست ہے وہ اچھا ہے تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر صرف چند بے حقیقت ناموں کی عبادت کرتے ہو، جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ٹھہرا لیا،خدا نے توان کی کوئی دلیل نہیں بھیجی، حکم خدا کا ہی ہے ، اس نے یہ حکم دیا کہ بجز اس کے اور کسی کی عبادت نہ کریں یہی سیدھا راستہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ، اے قید خانہ کے رفیقو، تم سے ایک تو اپنے آقا کو شراب پلائے گا اور دوسرا سولی دیاجائے گا اور اس کے سر کو پرندے کھائیں گے جس بارے میں تم پوچھتے تھے وہ اسی طرح مقدر ہوچکا اور جس شخص پر رہائی کا گمان تھا اس سے حضرت یوسف نے فرمایا کہ اپنے آقا سے میرا تذکرہ کرنا پھر اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا شیطان نے بھلادیا، تو قید خانہ میں اور بھی چند سال رہنا ہوا اور بادشاہ نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ سات گائیں فربہ ہیں جو سات لاغر گائیں کھا گئیں، اور سات بالیں سبز ہیں اور ان کے علاوہ سات بالیں اور جو خشک ہیں اے دربار والو، اگر تم تعبیر دے سکتے ہو تو میرے اس خواب کے بارے میں مجھے بتلاؤ، وہ کہنے لگے یوں ہی پریشان کن خیالات ہیں اور ہم لوگ خوابوں کی تعبیر کا علم بھی نہیں رکھتے ، ان دو قیدیوں میں سے جو رہا ہوگیا تھا اس نے کہا کہ اور مدت کے بعد اس کو خیال آیا میں اس کی تعبیر کی خبر لائے دیتاہوں، آپ لوگ مجھ کو ذرا جانے کی اجازت دیں ، اے یوسف اے صدق مجسم، آپ ہم کو اس کو جواب دیں کہ سات گائیں موٹی ہیں ان کو سات گائیں دبلی کھاگئیں اور سات بالیں ہری ہیں اور اس کے علاوہ خشک بھی ہیں تاکہ میں لوگوں کے پاس جاؤں، ان کو بھی معلوم ہوجائے ، آپ نے فرمایا کہ تم سات سال متواتر غلہ بونا، پھر جو فصل کاٹو اس کے بالوں میں رہنے دینا، ہاں مگر تھوڑا سا جو تمہارے کھانوں میں آئے پھر اس کے بعد سات برس ایسے سخت آئیں گے جو کہ ذخیرہ کو کھاجائیںگے جس کو تم نے برسوں کے واسطے جمع کرکے رکھا ہوگا مگر تھوڑا ساجو تم رکھ چھوڑو گے پھر اس کے بعد ایک برس آئے گا جس میں لوگوں کے لئے خوب بارش ہوگی، آخری آیت تک اور ادکر باب افتعال سے ہے، ذکر سے ماخوذ ہے اور امتة سے مراد قرن ہے اور بعض نے امہ پڑھاہے معنی نسیان اور ابن عباس نے کہا ،، یعصرون الاعناب والدھن، انگور نچوڑتے اور تیل نکالتے تھے، اور تحصنون، کے معنی ہے تم حفاظت کرتے ہو،

راوی: عبداللہ , جویریہ , مالک , زہری , سعید بن مسیب , وابوعبیدہ , ابوہریرہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ عَنْ مَالِکٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ وَأَبَا عُبَيْدٍ أَخْبَرَاهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ ثُمَّ أَتَانِي الدَّاعِي لَأَجَبْتُهُ قال ابوعبد الله يعنی لوکنت لاجبته فی اول ما دعيت لم أؤخره

عبداللہ ، جویریہ، مالک، زہری، سعید بن مسیب، وابوعبیدہ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں قید خانہ میں اتنی مدت رہتا جتنی مدت حضرت یوسف علیہ السلام اور میرے پاس بادشاہ کا قاصد آتا تو میں بلاشرط اس کی دعوت کو قبول کرلیتا۔

Narrated Abu Huraira:
Allah's Apostle said, "If I stayed in prison as long as Joseph stayed and then the messenger came, I would respond to his call (to go out of the prison) ."

یہ حدیث شیئر کریں