صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ توحید کا بیان ۔ حدیث 2413

باب (نیو انٹری)

راوی:

بَاب ذِكْرِ اللَّهِ بِالْأَمْرِ وَذِكْرِ الْعِبَادِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ وَالرِّسَالَةِ وَالْإِبْلَاغِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُونِ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ غُمَّةٌ هَمٌّ وَضِيقٌ قَالَ مُجَاهِدٌ اقْضُوا إِلَيَّ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ يُقَالُ افْرُقْ اقْضِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ وَإِنْ أَحَدٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ إِنْسَانٌ يَأْتِيهِ فَيَسْتَمِعُ مَا يَقُولُ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ فَهُوَ آمِنٌ حَتَّى يَأْتِيَهُ فَيَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ وَحَتَّى يَبْلُغَ مَأْمَنَهُ حَيْثُ جَاءَهُ النَّبَأُ الْعَظِيمُ الْقُرْآنُ صَوَابًا حَقًّا فِي الدُّنْيَا وَعَمَلٌ بِهِ

اللہ تعا لی کا اپنے حکم کے ذریعے اور بندوں کا دعا و تضرع اور رسالت اور خدا کا حکم پہنچانے کے ذریعہ یاد کرنے کا بیان ، اس لئے کہ اللہ تعالی ٰ نے فرمایا کہ تم مجھے یاد کرو میں تم کو یاد کرو ںگا ، اور ان کے سا منے نوح کی خبر بیان کرو جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم اگر میرا رہنا اور اللہ کی نشانیوں کا یاد دلانا تم پر شاق ہے تو میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ، پس تم اپنے شریکوں کو جمع کر لو اور اپنی تجویز پر اتفاق کرلو ، پھر ایسا نہ ہو کہ تمہارا کام تمہارے لئے غم کا سبب ہو پھر جو کچھ میرے حق میں کرنا ہو کرلو اور مجھے مہلت نہ دو ، پس اگر تم نے منہ پھیرا تو میں تم سے کو ئی اجر نہیں مانگتا میرا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں ۔ غمہ کے معنی غم اور تنگی ہے مجاہد نے کہا ”قضوا الی “ اقض کے معنی میں بولا جاتا ہے اور مجاہد نے کہا کہ وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتیٰ یسمع کلام اللہ سے مراد ہے کہ جو آپ فرماتے ہیں اور جو آپ پر اتارا گیا ہے اگر اسے کوئی آ کر سنے تو اس وقت تک امن و امان میں ہے جب تک کہ وہ آتا اور اللہ تعالی کے کلام کو سنتا ہے اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر جاتا ہے جہاں سے آیا ہے ” نبا ءعظیم “ سے مراد قرآن ہے” صواباً “کے معنی ہیں کہ دنیا میں حق بات کہی اور اس پر عمل کیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں