صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ کھانے کا بیان ۔ حدیث 422

تر اور خشک کھجور کا بیان اور اللہ تعالیٰ کا قول وھزی الیک بجذع النخلہ تساقط علیک رطبا جنیا اور محمد بن یوسف نے بواسطہ سفیان، منصور بن صفیہ، منصور کی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے ہم لوگ اسودین یعنی کھجور اور پانی سے شکم سیر ہوتے تھے

راوی: سعید بن ابی مریم , ابوغسان , ابوحازم , ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی ربیعہ , جابر بن عبد اللہ

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْن أَبِي رَبِيعَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ کَانَ بِالْمَدِينَةِ يَهُودِيٌّ وَکَانَ يُسْلِفُنِي فِي تَمْرِي إِلَی الْجِدَادِ وَکَانَتْ لِجَابِرٍ الْأَرْضُ الَّتِي بِطَرِيقِ رُومَةَ فَجَلَسَتْ فَخَلَا عَامًا فَجَائَنِي الْيَهُودِيُّ عِنْدَ الْجَدَادِ وَلَمْ أَجُدَّ مِنْهَا شَيْئًا فَجَعَلْتُ أَسْتَنْظِرُهُ إِلَی قَابِلٍ فَيَأْبَی فَأُخْبِرَ بِذَلِکَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ امْشُوا نَسْتَنْظِرْ لِجَابِرٍ مِنْ الْيَهُودِيِّ فَجَائُونِي فِي نَخْلِي فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُکَلِّمُ الْيَهُودِيَّ فَيَقُولُ أَبَا الْقَاسِمِ لَا أُنْظِرُهُ فَلَمَّا رَأَی النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَطَافَ فِي النَّخْلِ ثُمَّ جَائَهُ فَکَلَّمَهُ فَأَبَی فَقُمْتُ فَجِئْتُ بِقَلِيلِ رُطَبٍ فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَکَلَ ثُمَّ قَالَ أَيْنَ عَرِيشُکَ يَا جَابِرُ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ افْرُشْ لِي فِيهِ فَفَرَشْتُهُ فَدَخَلَ فَرَقَدَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَجِئْتُهُ بِقَبْضَةٍ أُخْرَی فَأَکَلَ مِنْهَا ثُمَّ قَامَ فَکَلَّمَ الْيَهُودِيَّ فَأَبَی عَلَيْهِ فَقَامَ فِي الرِّطَابِ فِي النَّخْلِ الثَّانِيَةَ ثُمَّ قَالَ يَا جَابِرُ جُدَّ وَاقْضِ فَوَقَفَ فِي الْجَدَادِ فَجَدَدْتُ مِنْهَا مَا قَضَيْتُهُ وَفَضَلَ مِنْهُ فَخَرَجْتُ حَتَّی جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَشَّرْتُهُ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ عُرُوشٌ وَعَرِيشٌ بِنَائٌ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَعْرُوشَاتٍ مَا يُعَرَّشُ مِنْ الْکُرُومِ وَغَيْرِ ذَلِکَ يُقَالُ عُرُوشُهَا أَبْنِيَتُهَا

سعید بن ابی مریم، ابوغسان، ابوحازم ، ابراہیم بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی ربیعہ، جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا، جو مجھ سے میری کھجوروں میں ان کے کاٹنے کے وقت تک کے لئے بیع سلم کیا کرتا تھا، میری ایک زمین بیر رومہ کے راستے میں تھی، ایک سال اس زمین میں کچھ پیداوار نہ ہوئی، میرے پاس یہودی پھل کاٹنے کے وقت آیا اور میں اس سے کچھ نہیں کاٹ سکا تھا، میں نے اس سے آئندہ سال کے لئے مہلت مانگی، لیکن اس نے انکار کیا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ چلو جابر کو اس یہودی سے مہلت دلائیں، چنانچہ یہ لوگ میرے باغ میں آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی سے مہلت دینے کو کہا تو اس یہودی نے کہا اے ابوالقاسم! میں اس کو مہلت نہیں دوں گا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صورت دیکھی تو آپ کھڑے ہوئے اور باغ میں گھومے، پھر اس یہودی کے پاس آئے اور گفتگو کی (مہلت دینے کو کہا) لیکن وہ نہ مانا، میں کھڑا ہوا اور تھوڑی سی کھجوریں لے کر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کو رکھ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کھایا پھر فرمایا اے جابر! تیری جھونپڑی کہاں ہے، میں نے آپ کو وہ جگہ بتا دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے لئے کوئی فرش بچھا دے، یہ سن کر فرش بچھا دیا، آپ اندر تشریف لے گئے اور سو رہے، پھر آپ بیدار ہوئے اور یہودی سے (اسی مہلت کے متعلق) گفتگو کی، لیکن وہ نہ مانا تو آپ تیسری بار کھجور کے درخت کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے جابر! تم کاٹتے جاؤ اور اس کو ادا کرتے جاؤ آپ کھجور کاٹنے کی جگہ بیٹھ گئے، چنانچہ میں نے اتنی کھجوریں توڑ لیں، جس سے میں نے اس یہودی کا قرض ادا کردیا اور کچھ باقی بھی بچ گیا، میں باہر نکلا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشخبری سنائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں، عروش اور عریش سے مراد مکان ہے اور ابن عباس رضی اللہ نے کہا کہ عروشات، انگور وغیرہ کی ٹٹیوں سے بھری ہوئی جگہ کو کہتے ہیں، عروشھا کے معنی ہیں ان کے مکانات۔

Narrated Jabir bin 'Abdullah:
There was a Jew in Medina who used to lend me money up to the season of plucking dates. (Jabir had a piece of land which was on the way to Ruma). That year the land was not promising, so the payment of the debt was delayed one year. The Jew came to me at the time of plucking, but gathered nothing from my land. I asked him to give me one year respite, but he refused. This news reached the Prophet whereupon he said to his companions, "Let us go and ask the Jew for respite for Jabir." All of them came to me in my garden, and the Prophet started speaking to the Jew, but he Jew said, "O Abu Qasim! I will not grant him respite." When the Prophet saw the Jew's attitude, he stood up and walked all around the garden and came again and talked to the Jew, but the Jew refused his request. I got up and brought some ripe fresh dates and put it in front of the Prophet. He ate and then said to me, "Where is your hut, O Jabir?" I informed him, and he said, "Spread out a bed for me in it." I spread out a bed, and he entered and slept. When he woke up, I brought some dates to him again and he ate of it and then got up and talked to the Jew again, but the Jew again refused his request. Then the Prophet got up for the second time amidst the palm trees loaded with fresh dates, and said, "O Jabir! Pluck dates to repay your debt." The Jew remained with me while I was plucking the dates, till I paid him all his right, yet there remained extra quantity of dates. So I went out and proceeded till I reached the Prophet and informed him of the good news, whereupon he said, "I testify that I am Allah's Apostle."

یہ حدیث شیئر کریں