پانچ نمازوں کے اوقات کے بیان میں
راوی: محمد بن عبداللہ بن نمیر , بدر بن عثمان , ابوبکر بن موسیٰ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا بَدْرُ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي مُوسَی عَنْ أَبِيهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَتَاهُ سَائِلٌ يَسْأَلُهُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا قَالَ فَأَقَامَ الْفَجْرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ وَالنَّاسُ لَا يَکَادُ يَعْرِفُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ بِالظُّهْرِ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ وَالْقَائِلُ يَقُولُ قَدْ انْتَصَفَ النَّهَارُ وَهُوَ کَانَ أَعْلَمَ مِنْهُمْ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ بِالْعَصْرِ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ بِالْمَغْرِبِ حِينَ وَقَعَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَائَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ ثُمَّ أَخَّرَ الْفَجْرَ مِنْ الْغَدِ حَتَّی انْصَرَفَ مِنْهَا وَالْقَائِلُ يَقُولُ قَدْ طَلَعَتْ الشَّمْسُ أَوْ کَادَتْ ثُمَّ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّی کَانَ قَرِيبًا مِنْ وَقْتِ الْعَصْرِ بِالْأَمْسِ ثُمَّ أَخَّرَ الْعَصْرَ حَتَّی انْصَرَفَ مِنْهَا وَالْقَائِلُ يَقُولُ قَدْ احْمَرَّتْ الشَّمْسُ ثُمَّ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّی کَانَ عِنْدَ سُقُوطِ الشَّفَقِ ثُمَّ أَخَّرَ الْعِشَائَ حَتَّی کَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ ثُمَّ أَصْبَحَ فَدَعَا السَّائِلَ فَقَالَ الْوَقْتُ بَيْنَ هَذَيْنِ
محمد بن عبداللہ بن نمیر، بدر بن عثمان، حضرت ابوبکر بن موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس وقت کوئی جواب نہ دیا اور صبح صادق کے طلوع ہو جانے پر فجر کی نماز پڑھی کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچانتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا تو ظہر کی نماز سورج کے ڈھل جانے پر پڑھی اور کہنے والا کہہ رہا تھا کہ دوپہر ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ان سے زیادہ جاننے والے تھے پھر حکم فرمایا اور عصر کی نماز قائم کی اور سورج ابھی بلند تھا پھر آپ نے حکم فرمایا اور سورج کے غروب پر ہی مغرب کی نماز قائم کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا اور شفق کے غائب ہونے پر عشاء کی نماز قائم کی اور پھر اگلے دن فجر کی نماز کو مؤخر فرمایا جب اس سے فارغ ہوئے تو کہنے والے نے کہا کہ سورج نکل گیا یا نکلنے والا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی نماز کو مؤخر فرمایا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت قریب تھا اور پھر عصر کی نماز میں اتنی تاخیر فرمائی کہ کہنے والے نے کہا کہ سورج زرد ہوگیا ہے اور مغرب کی نماز اتنی دیر سے پڑھی کہ شفق ڈوبنے کو ہوگئی اور عشاء کی نماز اتنی دیر سے پڑھی کہ تہائی رات کا ابتدائی حصہ ہوگیا پھر صبح کے وقت پوچھنے والے کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان میں ہے۔
Abu Musa narrated on the authority of his father that a person came to the Messenger of Allah (may peace be upon him) for inquiring about the times of prayers. He (the Holy Prophet) gave him no reply (because he wanted to explain to him the times by practically observing these prayers). He then said the morning player when it was daybreak, but the people could hardly recognise one another. He then commanded and the Iqama for the noon prayer was pronounced when the tan had passed the meridian and one would say that it was midday but he (the Holy Prophet) knew better than them. He then again commanded and the Iqama for the afternoon prayer was pronounced when the sun was high. He then commanded and Iqama for the evening prayer was pronounced when the sun had sunk. He then commanded and Iqama for the night prayer was pronounced when the twilight had disappeared. He then delayed the morning prayer on the next day (so much so) that after returning from it one would say that the sun had risen or it was about to rise. He then delayed the noon prayer till it was near the time of afternoon prayer (as it was observed yesterday). He then delayed the afternoon prayer till one after returning from it would say that the sun had become red. He then delayed the evening prayer till the twilight was about to disappear. He then delayed the night prayer till it was one-third of the night. He then called the inquirer in the morning and said: The time for prayers is between these two extremes).
