صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ مقدمہ مسلم ۔ حدیث 94

اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے ۔

راوی:

قَالَ مُسْلِم وَأَشْبَاهُ مَا ذَکَرْنَا مِنْ کَلَامِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُتَّهَمِي رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَإِخْبَارِهِمْ عَنْ مَعَايِبِهِمْ کَثِيرٌ يَطُولُ الْکِتَابُ بِذِکْرِهِ عَلَی اسْتِقْصَائِهِ وَفِيمَا ذَکَرْنَا کِفَايَةٌ لِمَنْ تَفَهَّمَ وَعَقَلَ مَذْهَبَ الْقَوْمِ فِيمَا قَالُوا مِنْ ذَلِکَ وَبَيَّنُوا وَإِنَّمَا أَلْزَمُوا أَنْفُسَهُمْ الْکَشْفَ عَنْ مَعَايِبِ رُوَاةِ الْحَدِيثِ وَنَاقِلِي الْأَخْبَارِ وَأَفْتَوْا بِذَلِکَ حِينَ سُئِلُوا لِمَا فِيهِ مِنْ عَظِيمِ الْخَطَرِ إِذْ الْأَخْبَارُ فِي أَمْرِ الدِّينِ إِنَّمَا تَأْتِي بِتَحْلِيلٍ أَوْ تَحْرِيمٍ أَوْ أَمْرٍ أَوْ نَهْيٍ أَوْ تَرْغِيبٍ أَوْ تَرْهِيبٍ فَإِذَا کَانَ الرَّاوِي لَهَا لَيْسَ بِمَعْدِنٍ لِلصِّدْقِ وَالْأَمَانَةِ ثُمَّ أَقْدَمَ عَلَی الرِّوَايَةِ عَنْهُ مَنْ قَدْ عَرَفَهُ وَلَمْ يُبَيِّنْ مَا فِيهِ لِغَيْرِهِ مِمَّنْ جَهِلَ مَعْرِفَتَهُ کَانَ آثِمًا بِفِعْلِهِ ذَلِکَ غَاشًّا لِعَوَامِّ الْمُسْلِمِينَ إِذْ لَا يُؤْمَنُ عَلَی بَعْضِ مَنْ سَمِعَ تِلْکَ الْأَخْبَارَ أَنْ يَسْتَعْمِلَهَا أَوْ يَسْتَعْمِلَ بَعْضَهَا وَلَعَلَّهَا أَوْ أَکْثَرَهَا أَکَاذِيبُ لَا أَصْلَ لَهَا مَعَ أَنَّ الْأَخْبَارَ الصِّحَاحَ مِنْ رِوَايَةِ الثِّقَاتِ وَأَهْلِ الْقَنَاعَةِ أَکْثَرُ مِنْ أَنْ يُضْطَرَّ إِلَی نَقْلِ مَنْ لَيْسَ بِثِقَةٍ وَلَا مَقْنَعٍ وَلَا أَحْسِبُ کَثِيرًا مِمَّنْ يُعَرِّجُ مِنْ النَّاسِ عَلَی مَا وَصَفْنَا مِنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الضِّعَافِ وَالْأَسَانِيدِ الْمَجْهُولَةِ وَيَعْتَدُّ بِرِوَايَتِهَا بَعْدَ مَعْرِفَتِهِ بِمَا فِيهَا مِنْ التَّوَهُّنِ وَالضَّعْفِ إِلَّا أَنَّ الَّذِي يَحْمِلُهُ عَلَی رِوَايَتِهَا وَالِاعْتِدَادِ بِهَا إِرَادَةُ التَّکَثُّرِ بِذَلِکَ عِنْدَ الْعَوَامِّ وَلِأَنْ يُقَالَ مَا أَکْثَرَ مَا جَمَعَ فُلَانٌ مِنْ الْحَدِيثِ وَأَلَّفَ مِنْ الْعَدَدِ وَمَنْ ذَهَبَ فِي الْعِلْمِ هَذَا الْمَذْهَبَ وَسَلَکَ هَذَا الطَّرِيقَ فَلَا نَصِيبَ لَهُ فِيهِ وَکَانَ بِأَنْ يُسَمَّی جَاهِلًا أَوْلَی مَنْ أَنْ يُنْسَبَ إِلَی عِلْمٍ

امام مسلم فرماتے کہ ہم نے مذکورہ سطور میں متہم راویان حدیث کے بارے میں اہل علم کے کلام سے ضعیف راویوں کی جو تفصیل ذکر کی ہے اور ان کی مرویات کے جن عیوب ونقائص کا ذکر کیا ہے وہ صاحب فراست کے لئے کافی ہیں اگر وہ تمام تنقیدی اقوال نقل کئے جاتے جو رواة حدیث کے متعلق علمائے حدیث نے بیان کئے تو کتاب بہت طویل ہو جاتی اور ائمہ حدیث نے راویوں کا عیب کھول دینا ضروری سمجھا اور اس بات کا فتوی دیا جب ان سے پوچھا گیا اس لئے یہ بڑا اہم کام ہے کیونکہ دین کی بات جب نقل کی جائے گی تو وہ کسی امر کے حلال ہونے کے لئے کافی ہوگی یا حرام ہونے کے لئے یا کسی بات کا حکم ہوگا یا کسی بات کی ممانعت یا وہ رغبت وخوف کے متعلق ہوگی تو یہ تمام احکام ونواہی احادیث پر موقوف ہیں جب حدیث کا کوئی راوی خود صادق اور امانت دار نہ ہو اور وہ روایت کا اقدام کرے اور بعد والے اس راوی کی ثقاہت کے باوجود دوسرے کو جو اس کو غیر ثقہ کے طور پر نہ جانتا ہو اس کی کوئی روایت بیان کرے اور اصل راوی کے احوال پہ کوئی تنقید وتبصرہ نہ کریں تو یہ مسلم عوام کے ساتھ خیانت اور دھوکا ہوگا کیونکہ ان احادیث میں بہت سی احادیث موضوع اور من گھڑت ہوں گی اور عوام کی اکثریت راویوں کے احوال سے نا واقفیت کی بناء پر ان احادیث پر عمل کرے گی تو اس کا گناہ اس راوی پر ہوگا جس نے یہ حدیث بیان کی کہ اس حدیث کو سننے والوں کی غیر معمولی تعداد مسلمانوں کی لاعلمی کی وجہ سے اس پر عمل کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو کیونکہ واقعہ میں وہ حدیث ہی نہیں یا کم از کم اس میں تغیر وتبدل کم بیشی تراش خراش کردی گئی علاوہ ازیں جبکہ احادیث صحیحہ جن کو معتبر اور ثقہ رواة نے بیان کیا ہے اس قدر کثرت کے ساتھ موجود ہیں کہ ان کی موجودگی میں ان باطل اور من گھڑت روایات کی مطلقا ضرورت ہی باقی نہیں رہتی اس تحقیق کے بعد میں یہ گمان نہیں کرتا کہ کوئی شخص اپنی کتاب میں مجہول غیر ثقہ اور غیر معتبر راویوں کی احادیث نقل کرے گا خصوصا جبکہ وہ سند حدیث سے مطلع ہو۔ سوائے اس شخص کے جو لوگوں کے نزدیک اپنا کثرت علم ثابت کرنا چاہیں کہ لوگ کہیں کہ وہ احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ پیش کر سکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ باطل وموضوع اور من گھڑت اسانید کے ساتھ بھی احادیث پیش کرنے میں تامل نہیں کرے گا تاکہ لوگ اس کی وسعت علم وکثرت روایات پر داد دیں لیکن جو شخص ایسے باطل طریقہ کو اختیار کرے گا اہل علم اور دانش مند طبقہ کے ہاں ایسے متحر عالم کی کوئی وقعت وقدر نہ ہوگی اور ایسے شخص کی وسعت علمی کو نادانی اور جہالت سے تعبیر کیا جائے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں