صحیح مسلم ۔ جلد دوم ۔ حج کا بیان ۔ حدیث 752

کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کے بیان میں

راوی: ہناد بن سری , ابن ابی زائدہ , ابن ابی سلیمان , عطاء

حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَائٍ قَالَ لَمَّا احْتَرَقَ الْبَيْتُ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ حِينَ غَزَاهَا أَهْلُ الشَّامِ فَکَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا کَانَ تَرَکَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَتَّی قَدِمَ النَّاسُ الْمَوْسِمَ يُرِيدُ أَنْ يُجَرِّئَهُمْ أَوْ يُحَرِّبَهُمْ عَلَی أَهْلِ الشَّامِ فَلَمَّا صَدَرَ النَّاسُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي الْکَعْبَةِ أَنْقُضُهَا ثُمَّ أَبْنِي بِنَائَهَا أَوْ أُصْلِحُ مَا وَهَی مِنْهَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَإِنِّي قَدْ فُرِقَ لِي رَأْيٌ فِيهَا أَرَی أَنْ تُصْلِحَ مَا وَهَی مِنْهَا وَتَدَعَ بَيْتًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهِ وَأَحْجَارًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهَا وَبُعِثَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ لَوْ کَانَ أَحَدُکُمْ احْتَرَقَ بَيْتُهُ مَا رَضِيَ حَتَّی يُجِدَّهُ فَکَيْفَ بَيْتُ رَبِّکُمْ إِنِّي مُسْتَخِيرٌ رَبِّي ثَلَاثًا ثُمَّ عَازِمٌ عَلَی أَمْرِي فَلَمَّا مَضَی الثَّلَاثُ أَجْمَعَ رَأْيَهُ عَلَی أَنْ يَنْقُضَهَا فَتَحَامَاهُ النَّاسُ أَنْ يَنْزِلَ بِأَوَّلِ النَّاسِ يَصْعَدُ فِيهِ أَمْرٌ مِنْ السَّمَائِ حَتَّی صَعِدَهُ رَجُلٌ فَأَلْقَی مِنْهُ حِجَارَةً فَلَمَّا لَمْ يَرَهُ النَّاسُ أَصَابَهُ شَيْئٌ تَتَابَعُوا فَنَقَضُوهُ حَتَّی بَلَغُوا بِهِ الْأَرْضَ فَجَعَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَعْمِدَةً فَسَتَّرَ عَلَيْهَا السُّتُورَ حَتَّی ارْتَفَعَ بِنَاؤُهُ وَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِنِّي سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَوْلَا أَنَّ النَّاسَ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِکُفْرٍ وَلَيْسَ عِنْدِي مِنْ النَّفَقَةِ مَا يُقَوِّي عَلَی بِنَائِهِ لَکُنْتُ أَدْخَلْتُ فِيهِ مِنْ الْحِجْرِ خَمْسَ أَذْرُعٍ وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ وَبَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ قَالَ فَأَنَا الْيَوْمَ أَجِدُ مَا أُنْفِقُ وَلَسْتُ أَخَافُ النَّاسَ قَالَ فَزَادَ فِيهِ خَمْسَ أَذْرُعٍ مِنْ الْحِجْرِ حَتَّی أَبْدَی أُسًّا نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ فَبَنَی عَلَيْهِ الْبِنَائَ وَکَانَ طُولُ الْکَعْبَةِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ ذِرَاعًا فَلَمَّا زَادَ فِيهِ اسْتَقْصَرَهُ فَزَادَ فِي طُولِهِ عَشْرَ أَذْرُعٍ وَجَعَلَ لَهُ بَابَيْنِ أَحَدُهُمَا يُدْخَلُ مِنْهُ وَالْآخَرُ يُخْرَجُ مِنْهُ فَلَمَّا قُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ کَتَبَ الْحَجَّاجُ إِلَی عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ مَرْوَانَ يُخْبِرُهُ بِذَلِکَ وَيُخْبِرُهُ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ قَدْ وَضَعَ الْبِنَائَ عَلَی أُسٍّ نَظَرَ إِلَيْهِ الْعُدُولُ مِنْ أَهْلِ مَکَّةَ فَکَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِکِ إِنَّا لَسْنَا مِنْ تَلْطِيخِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي شَيْئٍ أَمَّا مَا زَادَ فِي طُولِهِ فَأَقِرَّهُ وَأَمَّا مَا زَادَ فِيهِ مِنْ الْحِجْرِ فَرُدَّهُ إِلَی بِنَائِهِ وَسُدَّ الْبَابَ الَّذِي فَتَحَهُ فَنَقَضَهُ وَأَعَادَهُ إِلَی بِنَائِهِ

ہناد بن سری، ابن ابی زائدہ، ابن ابی سلیمان، حضرت عطاء سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں جس وقت کہ شام والوں نے مکہ والوں سے جنگ کی اور بیت اللہ جل گیا اور اس کے نتیجے میں جو ہونا تھا وہ ہوگیا تو حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت اللہ کو اسی حال میں چھوڑ دیا تاکہ حج کے موسم میں لوگ آئیں حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاہتے تھے کہ وہ ان لوگوں کو شام والوں کے خلاف ابھاریں اور انہیں برانگیختہ کریں جب وہ لوگ واپس ہونے لگے تو حضرت زبیر نے فرمایا اے لوگو! مجھے کعبۃ اللہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے توڑ کر دوبارہ بناوں یا اس کی مرمت وغیرہ کروا دوں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرمانے لگے کہ میری یہ رائے ہے کہ اس کا جو حصہ خراب ہوگیا اس کو درست کروا لیا جائے باقی بیت اللہ کو اسی طرح رہنے دیا جائے جس طرح کہ لوگوں کے زمانہ میں تھا اور انہی پتھروں کو باقی رہنے دو کہ جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تو حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ خوش نہیں ہوگا جب تک کہ اسے نیا نہ بنالے تو اپنے رب کے گھر کو کیوں نہ بنایا جائے؟ میں تین مرتبہ استخارہ کروں گا پھر اس کام پر پختہ عزم کروں گا جب انہوں نے تین مرتبہ استخارہ کرلیا تو انہوں نے اسے توڑنے کا ارادہ کیا تو لوگوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ جو آدمی سب سے پہلے بیت اللہ کو توڑنے کے لئے اس پر چڑھے گا تو اس پر آسمان سے کوئی چیز بلا نازل نہ ہو جائے تو ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس نے اس میں سے ایک پتھر گرایا تو جب لوگوں نے اس پر دیکھا کہ کوئی تکلیف نہیں پہنچی تو سب لوگوں نے اسے مل کو توڑ ڈالا یہاں تک کہ اسے زمین کے برابر کردیا حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند ستون کھڑے کر کے اس پر پر دے ڈال دئیے یہاں تک کہ اس کی دیواریں بلند ہوگئیں اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگوں نے کفر کو نیا نیا چھوڑا نہ ہوتا اور میرے پاس اس کی تعمیر کا خرچہ بھی نہیں ہے اگر میں دوبارہ بناتا تو حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں داخل کر دیتا اور اس میں ایک دروازہ ایسا بناتا کہ جس سے لوگ باہر نکلیں حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آج میرے پاس اس کا خرچہ بھی موجود ہے اور مجھے لوگوں کا ڈر بھی نہیں ہے راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن زبیر نے حطیم میں سے پانچ ہاتھ جگہ بیت اللہ میں زیادہ کر دی یہاں تک کہ اس جگہ سے اس کی بنیاد ظاہر ہوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام والی بنیاد جسے لوگوں نے دیکھا حضرت ابن زبیرنے اس بنیاد پر دیوار کی تعمیر شروع کرادی اس طرح بیت اللہ لمبائی میں اٹھارہ ہاتھ ہوگیا جب اس میں زیادتی کی تو اس کا طول کم معلوم ہونے لگا پھر اس کے طول میں دس ہاتھ زیادتی کی اور اس کے دو دروازے بنائے کہ ایک دروازہ سے داخل ہوں اور دوسرے دروازے سے باہر نکلا جائے تو جب حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کر دئیے گئے تو حجاج نے جواباً عبدالملک بن مروان کو اس کی خبر دی اور لکھا کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعبۃ اللہ کی جو تعمیر کی ہے وہ ان بنیادوں کے مطابق ہے جنہیں مکہ کے باعتماد لوگوں نے دیکھا ہے تو عبدالملک نے جوابًا حجاج کو لکھا کہ ہمیں حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رد وبدل سے کوئی غرض نہیں انہوں نے طول میں جو اضافہ کیا ہے اور حطیم سے جو زائد جگہ بیت اللہ میں داخل کی ہے اسے واپس نکال دو اور اسے پہلی طرح دوبارہ بنا دو اور جو دروازہ انہوں نے کھولا ہے اسے بھی بند کر دو پھر حجاج نے بیت اللہ کو گرا کر دوبارہ پہلے کی طرح اسے بنا دیا۔

'Ata' reported: The House was burnt during the time of Yazid b. Muawiya when the people of Syria had fought (in Mecca). And it happened with it (the Ka'ba) what was (in store for it). Ibn Zubair (Allah be pleased with him) felt it (in the same state) until the people came in the season (of Hajj). (The idea behind was) that he wanted to exhort them or incite them (to war) against the people of Syria. When the people had arrived he said to them: O people, advise me about the Ka'ba. Should I demolish it and then build it from its very foundation, or should I repair whatever has been damaged of it? Ibn 'Abbas said: An idea has occurred to me according to which I think that you should only repair (the portion which has been) damaged, and leave the House (in that very state in which) people embraced Islam (and leave those very stones in the same state) when people embraced Islam, and over which Allah's Apostle (may peace be upon him) had raised it. Thereupon Ibn Zubair said: If the house of any one of you is burnt, he would not be contented until he had reconstructed it, then what about the House of your Lord (which is far more important than your house)? I would seek good advice from my Lord thrice and then I would make up (my mind) about this affair. After seeking good advice thrice, he made up his mind to demolish it. The people apprehended that calamity might fall from heaven on those persons who would be first to climb (over the building for the purpose of demolishing it), till one (took up courage, and ascended the roof), and threw down one of its stones. When the people saw no calamity befalling him, they followed him, demolished it until it was razed to the ground. Then Ibn Zubair erected pillars and hung curtains on them (in order to provide facilities to the people for observing the time of its construction). And the walls were raised; and Ibn Zubair said: I heard 'A'isha (Allah be pleased with her) say that Allah's Apostle (may peace be upon him) had observed: If the people had not recently (abandoned) unbelief, and I had means enough to reconstruct it, which I had not, I would have definitely excompassed in it five cubits of area from Hijr. And I would also have constructed a door for the people to enter, and a door for their exit. I today have (the means to spend) and I entertain no fear from the side of people (that they would protest against this change). So he added five cubits of area from the side of Hatim to it that there appeared (the old) foundation (upon which Hadrat Ibrahim had built the Ka'ba). And the people saw that and it was upon this foundation that the wall was raised. The length of the Ka'ba was eighteen cubits. when addition was made to it (which was in its breadth), then naturally the length appears to be) small (as compared with its breadth). Then addition of ten cubits (of area) was made in its length (also). Two doors were also constructed, one of which (was meant) for entrance and the other one for exit. When Ibn Zubair (Allah be pleased with him) was killed, Hajjaj wrote to 'Abd al-Malik (b. Marwan) informing him about it, and telling him that Ibn Zubair (Allah be pleased with him) had built (the Ka'ba) on those very foundations (which were laid by Ibrahim) and which reliable persons among the Meccans had seen. 'Abd al-Malik wrote to him: We are not concerned with the censuring of Ibn Zubair in anything. Keep intact the addition made by him in the side of length, and whatever he has added from the side of Hijr revert to (its previous) foundation, and wall up the door which he had opened. Thus Hajjaj at the command of Abd al-Malik demolished it (that portion) and rebuilt it on (its previous) foundations.

یہ حدیث شیئر کریں