صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ فضائل کا بیان ۔ حدیث 1618

بغیر ضرورت کے کثرت سے سوال کرنے کی ممانعت کے بیان میں

راوی: محمود بن غیلان محمد بن قدامہ سلمہ یحیی بن محمد لولوی محمود نضر بن شمیل نضر شعبہ , موسیٰ بن انس , انس بن مالک

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَمُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ السُّلَمِيُّ وَيَحْيَی بْنُ مُحَمَّدٍ اللُّؤْلُؤِيُّ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ قَالَ مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ و قَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا النَّضْرُ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَصْحَابِهِ شَيْئٌ فَخَطَبَ فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ فَلَمْ أَرَ کَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ وَلَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَکَيْتُمْ کَثِيرًا قَالَ فَمَا أَتَی عَلَی أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمٌ أَشَدُّ مِنْهُ قَالَ غَطَّوْا رُئُوسَهُمْ وَلَهُمْ خَنِينٌ قَالَ فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا قَالَ فَقَامَ ذَاکَ الرَّجُلُ فَقَالَ مَنْ أَبِي قَالَ أَبُوکَ فُلَانٌ فَنَزَلَتْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَائَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ

محمود بن غیلان محمد بن قدامہ سلمہ یحیی بن محمد لولوی محمود نضر بن شمیل نضر شعبہ، موسیٰ بن انس، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کو اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرف سے کوئی بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں فرمایا کہ میرے سامنے جنت اور دوزخ کو پیش کیا گیا تو میں نے آج کے دن کی طرح کوئی خیر اور کوئی شر کبھی نہیں دیکھی اور اگر تم بھی جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تم لوگ کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ راوی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر اس دن سے زیادہ سخت دن کوئی نہیں آیا۔ راوی کہتے ہیں کہ ان سب نے اپنے سروں کو جھکا لیا اور ان پر گریہ طاری ہو گیا راوی کہتے ہیں کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور وہ کہنے لگے ہم اللہ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نبی ہونے پر راضی ہیں پھر اس کے بعد وہی آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میرے باپ کون تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا باپ فلاں تھا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْ َ لُوْا عَنْ اَشْيَا ءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ) 5۔ المائدہ : 101) اے ایمان والو تم ایسی چیزوں کے بارے میں نہ پوچھا کرو کہ اگر وہ ظاہر ہو جائیں تو تم کو بری معلوم ہونے لگیں۔

Anas b. Malik reported that something was conveyed to him (the Holy prophet) about his Companions, so he addressed them and said: Paradise and Hell were presented to me and I have never seen the good and evil as (I did) today. And if you were to know you would have wept more and laughed less. He (the narrator) said: There was nothing more burdensome for the Companions of Allah's Messenger (may peace be upon him) than this. They covered their heads and the sound of weeping was heard from them. Then there stood up 'Umar and he said: We are well pleased with Allah as our Lord, with Islam as our code of life and with Muhammad as our Apostle, and it was at that time that a person stood up and he said: Who is my father? Thereupon he (the Holy Prophet) said: Your father is so and so; and there was revealed the verse: "O you who believe, do not ask about matters which, if they were to be made manifest to you (in terms of law), might cause to you harm" (v. 101).

یہ حدیث شیئر کریں