صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ جہاد کا بیان ۔ حدیث 164

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوت اسلام دینا اور اس پر منافقوں کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرنے کا بیان

راوی: محمد بن عبدالاعلی قیسی , معتمر , انس بن مالک

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی الْقَيْسِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ وَرَکِبَ حِمَارًا وَانْطَلَقَ الْمُسْلِمُونَ وَهِيَ أَرْضٌ سَبَخَةٌ فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِلَيْکَ عَنِّي فَوَاللَّهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِکَ قَالَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَاللَّهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنْکَ قَالَ فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ قَالَ فَغَضِبَ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ قَالَ فَکَانَ بَيْنَهُمْ ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ وَبِالْأَيْدِي وَبِالنِّعَالِ قَالَ فَبَلَغَنَا أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِمْ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا

محمد بن عبدالاعلی قیسی، معتمر، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس دعوت اسلام کے لئے تشریف لے جائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف گدھے پر سوار ہو کر چلے اور مسلمان بھی چلے اور یہ شور والی زمین تھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا مجھ سے دور رہو اللہ کی قسم تمہارے گدھے کی بدبو سے مجھے تکلیف ہوتی ہے انصار میں سے ایک آدمی نے کہا اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھا تجھ سے زیادہ پاکیزہ ہے پس عبداللہ کی قوم میں ایک آدمی غصہ میں آ گیا پھر دونوں طرف کے ساتھیوں کو غصہ آ گیا اور انہوں نے چھڑیوں ہاتھوں اور جوتوں سے ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیا راوی کہتا ہے ہمیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور اگر مومنین کی دو جماعتیں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو۔

It has been narrated on the authority of Anas b. Malik that it was said to the Holy Prophet (may peace be upon him): Would that you approached Abdullah b. Ubayy (to persuade him to accept Islam). The Holy Prophet (may peace be upon him) (accordingly) went to him, riding a donkey, and (a party of) Muslims also went (with him). On the way they had to walk over a piece of land affected with salinity. When the Holy Prophet (may peace be upon him) approached him, he said: Do not come near me. By Allah, the obnoxious smell of your donkey has offended me. (As a rejoinder to this remark), a man from the Ansar said: By God, the smell of the donkey of the Messenger of Allah (may peace be upon him) is better than your smell. (At this), a man from the tribe of 'Abdullah got furious. Then people from both sides got furious and exchanged blows with sticks, hands and shoes. (The narrator says) that (after this scuffle) we learnt that (the Qur'anic verse): "If two parties of the Believers have a quarrel, make ye peace between them" (xlix. 9) was revealed about these fighting parties.

یہ حدیث شیئر کریں