صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ فضائل کا بیان ۔ حدیث 1662

خضر علیہ السلام کے فضائل کے بیان میں

راوی: عمرو بن محمد ناقد اسحاق بن ابراہیم , عبیداللہ بن سعید محمد بن ابی عمر مکی , ابن عیینہ ابن عمر سفیان بن عیینہ , عمرو بن دینار سعید بن جبیر

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَکِّيُّ کُلُّهُمْ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِکَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ هُوَ مُوسَی صَاحِبَ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ کَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ کَعْبٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَامَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا أَعْلَمُ قَالَ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ مُوسَی أَيْ رَبِّ کَيْفَ لِي بِهِ فَقِيلَ لَهُ احْمِلْ حُوتًا فِي مِکْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَحَمَلَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام حُوتًا فِي مِکْتَلٍ وَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَقَدَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام وَفَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِکْتَلِ حَتَّی خَرَجَ مِنْ الْمِکْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ قَالَ وَأَمْسَکَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَائِ حَتَّی کَانَ مِثْلَ الطَّاقِ فَکَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَکَانَ لِمُوسَی وَفَتَاهُ عَجَبًا فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا وَنَسِيَ صَاحِبُ مُوسَی أَنْ يُخْبِرَهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّی جَاوَزَ الْمَکَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ مُوسَی ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّی أَتَيَا الصَّخْرَةَ فَرَأَی رَجُلًا مُسَجًّی عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَی فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ أَنَّی بِأَرْضِکَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ إِنَّکَ عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَکَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَی عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ قَالَ لَهُ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام هَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا قَالَ لَهُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا قَالَ نَعَمْ فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَی يَمْشِيَانِ عَلَی سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَکَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَی لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَی سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَی السَّاحِلِ إِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ فَقَالَ مُوسَی أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاکِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا قَالَ وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَی قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ يَقُولُ مَائِلٌ قَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَکَذَا فَأَقَامَهُ قَالَ لَهُ مُوسَی قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَتَخِذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَی لَوَدِدْتُ أَنَّهُ کَانَ صَبَرَ حَتَّی يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَتْ الْأُولَی مِنْ مُوسَی نِسْيَانًا قَالَ وَجَائَ عُصْفُورٌ حَتَّی وَقَعَ عَلَی حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُکَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلَ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَکَانَ يَقْرَأُ وَکَانَ أَمَامَهُمْ مَلِکٌ يَأْخُذُ کُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَکَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ کَافِرًا

عمرو بن محمد ناقد اسحاق بن ابراہیم، عبیداللہ بن سعید محمد بن ابی عمر مکی، ابن عیینہ ابن عمر سفیان بن عیینہ، عمرو بن دینار حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ نوف بکالی کا گمان ہے کہ بنی اسرائیل والے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور تھے اور حضرت خضر علیہ السلام کے حضرت موسیٰ اور تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا اللہ کے اس دشمن نے جھوٹ بولا ہے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے ہو کر بنی اسرائیل کو خطبہ دے رہے تھے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم والا کون ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے زیادہ علم والا ہوں آپ نے فرمایا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر عتاب فرمایا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف علم کو نہیں لوٹایا یعنی اللہ کا علم سب سے زیادہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی کی کہ مجمع البحرین میں میرے بندوں میں سے ایک بندہ ایسا ہے کہ جو تجھ سے بھی زیادہ علم رکھتا ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے میرے پروردگار میں تیرے اس بندہ تک کیسے پہنچوں گا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا اپنے تھیلے میں ایک مچھلی رکھو جس جگہ وہ مچھلی گم ہو جائے گی تو وہی وہ جگہ کہ جہاں میرا وہ بندہ ہوگا جو تجھ سے زیادہ علم والا ہے یعنی حضرت خضر علیہ السلام پھر حضرت موسیٰ چل پڑے اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام بھی ان کے ساتھ چل پڑے دونوں حضرات چلتے چلتے ایک چٹان کے پاس آ گئے حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع علیہم السلام دونوں حضرات سو گئے تھیلے میں مچھلی تڑپی اور تھیلی میں سے باہر نکل کر سمندر میں جا گری اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کی خاطر پانی کے بہنے کو روک دیا یہاں تک کہ مچھلی کے لئے پانی میں مخروطی کی طرح ایک سرنگ بنتی چلی گئی اور مچھلی کے لئے خشک راستہ بن گیا حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع علیہما السلام دونوں حضرات کے لئے یہ ایک حیران کن منظر تھا تو باقی سارا دن اور ساری رات وہ دونوں چلتے رہے اور حضرت موسیٰ کے ساتھی ان کو یہ بتانا بھول گئے تو جب صبح ہوئی اور حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے کہا ناشتہ لاؤ اس سفر نے تو ہمیں تھکادیا ہے اور تھکاوٹ اس وقت سے شروع ہوئی جب اس جگہ سے آگے نکل گئے جس جگہ جانے کا حکم دیا گیا تھا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم صخرہ ایک چٹان تک آئے تو اور شیطان ہی نے تو ہمیں مچھلی کا ذکر کرنے سے بھلا دیا اور بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے فرمایا ہم اسی جگہ کی تلاش میں تو تھے پھر وہ دونوں حضرات اپنے قدموں کے نشانات پر واپس ہوئے پھر یہاں تک کہ وہ اس صخرہ چٹان پر آ گئے اس جگہ ایک آدمی کو اپنے اوپر کپڑا اوڑھے ہوئے دیکھا حضرت موسیٰ نے ان پر سلام کیا حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ سے فرمایا ہمارے علاقے میں سلام کہاں؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا جی ہاں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ اللہ تعالیٰ نے تمہیں وہ علم دیا ہے کہ جسے میں نہیں جانتا اور مجھے وہ عطا فرمایا ہے کہ جسے آپ نہیں جانتے حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم سکھا دیں جو اللہ نے آپ کو دیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے اور تمہیں اس بات پر کس طرح صبر ہو سکے گا کہ جس کا تمہیں علم نہیں حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے اور میں کسی معاملہ میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے فرمایا اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود ہی وہ بات آپ سے بیان نہ کر دوں حضرت موسیٰ نے فرمایا اچھا چنانچہ حضرت خضر اور حضرت موسیٰ دونوں حضرات سمندر کے کنارے چلے ان دونوں حضرات کے سامنے سے ایک کشتی گزری انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ وہ ہمیں اپنی کشتی پر سوار کر لے کشتی والوں نے حضرت خضر کو پہچان لیا تو انہوں نے ان دونوں حضرات کو بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کر لیا تو حضرت خضر نے اس کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کو اکھاڑ پھینکا حضرت موسیٰ نے حضرت خضر سے فرمایا ان کشتی والوں نے ہمیں بغیر کرایہ کے کشتی پر سوار کیا ہے اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا ہے تاکہ کشتی والوں کو غرق کر دیا جائے یہ تو نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر نے فرمایا کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے حضرت موسیٰ نے فرمایا اس چیز کو بھی میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میری پکڑ نہ کریں اور نہ ہی میرے معاملہ میں کوئی سختی کریں پھر دونوں حضرات کشتی سے نکلے اور سمندر کے ساحل پر چلنے لگے تو انہوں نے ایک لڑکے کو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا حضرت خضر نے اس لڑکے کو پکڑ کر اس کا سر تن سے جدا کر دیا حضرت موسیٰ پھر بول پڑے کہ آپ نے ایک لڑکے کو بغیر کسی وجہ کے قتل کر دیا آپ نے بڑا نازیبا کام کیا حضرت خضر نے فرمایا اے موسیٰ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت خضر علیہ السلام کا یہ انداز پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا حضرت موسیٰ نے فرمایا اگر اب میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں کیونکہ میرا عذر معقول ہے پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں تک آئے انہوں نے ان گاؤں والوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے ان کو مہمان رکھنے سے انکار کر دیا ان دونوں حضرات نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گر نے کے قریب تھی تو اس دیوار کو سیدھا کر دیا وہ دیوار جھکی ہوئی تھی تو حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اس دیوار کو سید ھا کر دیا حضرت موسیٰ فرمانے لگے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس ہم گئے تھے لیکن انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی اور ہمیں کھانا نہیں کھلایا اگر آپ چاہیں تو ان سے اس دیوار کو سیدھا کرنے کی مزدوری لے لیں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اب میں آپ کو ان باتوں کا بیان بتاتا ہوں کہ جس پر آپ صبر نہیں کر سکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے کاش کہ وہ صبر کرتے یہاں تک کہ اللہ ہمیں ان دونوں حضرات کے مزید واقعات بیان فرماتا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت موسیٰ کا پہلی مرتبہ سوال کرنا بھول تھا آپ نے فرمایا ایک چڑیا آئی یہاں تک کہ وہ کشتی کے کنارے بیٹھ گئی پھر اس چڑیا نے اپنی چونچ سمندر میں ڈالی تو حضرت خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ میرے اور تیرے علم سے اللہ تعالیٰ کے علم میں اتنی کمی بھی نہیں کی جتنی اس چڑیا نے سمندر میں کی ہے سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما پڑھتے تھے کہ ان کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح کشتی کو چھین لیتا تھا اور وہ یہ بھی پڑھتے تھے کہ وہ لڑکا کافر تھا

Sa'id b. jubair reported: I said to Ibn Abbas that Nauf al-Bikali was of the opinion that Moses (peace be upon him), the Apostle of Bani Isra'il, was not the same who accompanied Khadir, whereupon he said: The enemy of Allah tells a lie. I heard Ubayy b. Ka'b say: Moses (peace be upon him) stood up to give sermon to the people of Isra'il. He was asked as to who amongst the people has the best knowledge, whereupon he said: I have the best knowledge. Thereupon Allah was annoyed with him that he did not attribute (the best knowledge) to Him. He revealed to him: A servant amongst My servants is at the junction of two rivers who has more knowledge than yours. Moses said: How can I meet him? It was said to him: Carry a fish in the large basket and the place where you find it missing there you will find him. Thereupon Moses proceeded forth along with a young man (Yusha'). Joshua b. Nun and Moses (peace be upon him) put the fish in the basket and there went along with him the young man (Yusha') until they came to a certain rock and Moses and his companion went to sleep and the fish stirred in that basket and fell into the ocean and Allah stopped the current of water like a vault until the way was made for the fish. Moses and his young companion were astonished and they walked for the rest of the day and the night and the friend of Moses forgot to inform him of this incident. When it was morning, Moses (peace be upon him) said to the young man: Bring for us the breakfast for we are dead tired because of this journey, and they did not feel exhausted until they had passed that place where they had been commanded (to stay). He said: Don't you know that when we reached the Sakhra (rock) I forgot the fisii and noth ng made me forget it but the satan that I. could nit remember it? How strange is it that the fish found a way in the river? Moses said: That was what we had been aiming at. Then both of them retraced their steps until they reached Sakhra; there they saw a man covered with a cloth. Moses greeted him. Khadir said to him: Where is as-Salam in our country? He said: I am Moses, whereupon he (Khadir) said: You mean the Moses of Bani Isra'il? He said: Yes. He (Khadir) said: You have a knowledge out of the knowledge of Allah which in fact Allah imparted to you and about that I know nothing and I have knowledge out of Allah's knowledge which He imparted to me and about that you do not know. Moses (peace be upon him) said to him: May I follow you so that you may teach me that with which you have been taught righteousness. He said: You will not be able to bear with me; how you will be able to bear that about which you do not know? Moses said: Thou will find me patient, nor shalt I disobey you in aught. Khadir said to him: If you were to follow me, then do not ask me about anything until I myself speak to you about it. He said: Yes. So Khadir and Moses set forth on the bank of the river that there came before them a boat. Both of them talked to them (the owners of the boat) so that they might carry both of them.
They had recognised Khadir and they carried them free. Khadir thereupon took hold of a plank in the boat and broke it away. Moses said: These people have carried us without any charge and you attempt to break their boat so that the people sailing in the boat may drown. This is (something) grievous that you have done. He said: Did I not say that you would not bear with me? He said: Blame me not for what I forgot and be not hard upon what I did. Then both of them got down from the boat and began to walk along the coastline that they saw a boy who had been playing with other boys. Khadir pulled up his head and killed him. Moses said: Have you killed an innocent person who is in no way guilty of slaying another? You have done something horrible. Thereupon he said: Did I not say to you that you will not be able to bear with me? He (Moses) said: This (act) is more grievous than the first one. He (Moses) further said. If I ask you about anything after this, keep not company with me, then you would no doubt find (a plausible) excuse for this. Then they both walked on until they reached the inhabitants of a village. They asked its inhabitants for food but they refused to entertain them as their guests. They found in it a wall which had been bent on one side and was about to fall. Khadir set it right with his own hand. Moses, said to him: It is the people to whom we came but they showed us no hospitality and they did not serve us food. If you wish you can get wages for it. He (Khadir) said: This is the parting of ways between me and you. Now I wish to reveal to you the significance of that for which you could not bear with me. Allah's Messenger (may peace be upon him) said. May Allah have mercy upon Moses! I wish if Moses could show patience and a (fuller) story of both of them could have been told. Allah's Messenger (may peace be upon him) said that the first thing which Moses said was out of forgetfulness. Then there came a sparrow until it perched on the wall of the boat and took water from the ocean. Thereupon, Khadir said: My knowledge and your knowledge in comparison with the knowledge of Allah is even less than the water taken by the sparrow in its beak in comparison to the water of the ocean, and Sa'id b. jubair used to recite (verses 79 and 80 of Sura Kahf) in this way: There was before them a king who used to seize every boat by force which was in order, the boy was an unbeliever.

یہ حدیث شیئر کریں