صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ فضائل کا بیان ۔ حدیث 1664

خضر علیہ السلام کے فضائل کے بیان میں

راوی: ابی بن کعب

حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ کَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام فِي قَوْمِهِ يُذَکِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ وَأَيَّامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَبَلَاؤُهُ إِذْ قَالَ مَا أَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا خَيْرًا وَأَعْلَمَ مِنِّي قَالَ فَأَوْحَی اللَّهُ إِلَيْهِ إِنِّي أَعْلَمُ بِالْخَيْرِ مِنْهُ أَوْ عِنْدَ مَنْ هُوَ إِنَّ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا هُوَ أَعْلَمُ مِنْکَ قَالَ يَا رَبِّ فَدُلَّنِي عَلَيْهِ قَالَ فَقِيلَ لَهُ تَزَوَّدْ حُوتًا مَالِحًا فَإِنَّهُ حَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ قَالَ فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ حَتَّی انْتَهَيَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَعُمِّيَ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ وَتَرَکَ فَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمَائِ فَجَعَلَ لَا يَلْتَئِمُ عَلَيْهِ صَارَ مِثْلَ الْکُوَّةِ قَالَ فَقَالَ فَتَاهُ أَلَا أَلْحَقُ نَبِيَّ اللَّهِ فَأُخْبِرَهُ قَالَ فَنُسِّيَ فَلَمَّا تَجَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَائَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يُصِبْهُمْ نَصَبٌ حَتَّی تَجَاوَزَا قَالَ فَتَذَکَّرَ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَی الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْکُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَی آثَارِهِمَا قَصَصًا فَأَرَاهُ مَکَانَ الْحُوتِ قَالَ هَا هُنَا وُصِفَ لِي قَالَ فَذَهَبَ يَلْتَمِسُ فَإِذَا هُوَ بِالْخَضِرِ مُسَجًّی ثَوْبًا مُسْتَلْقِيًا عَلَی الْقَفَا أَوْ قَالَ عَلَی حَلَاوَةِ الْقَفَا قَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ فَکَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ قَالَ وَعَلَيْکُمْ السَّلَامُ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَی قَالَ وَمَنْ مُوسَی قَالَ مُوسَی بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ مَجِيئٌ مَا جَائَ بِکَ قَالَ جِئْتُ لِ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا قَالَ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا وَکَيْفَ تَصْبِرُ عَلَی مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا شَيْئٌ أُمِرْتُ بِهِ أَنْ أَفْعَلَهُ إِذَا رَأَيْتَهُ لَمْ تَصْبِرْ قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَائَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَکَ أَمْرًا قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْئٍ حَتَّی أُحْدِثَ لَکَ مِنْهُ ذِکْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا رَکِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا قَالَ انْتَحَی عَلَيْهَا قَالَ لَهُ مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا لَقِيَا غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ قَالَ فَانْطَلَقَ إِلَی أَحَدِهِمْ بَادِيَ الرَّأْيِ فَقَتَلَهُ فَذُعِرَ عِنْدَهَا مُوسَی عَلَيْهِ السَّلَام ذَعْرَةً مُنْکَرَةً قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاکِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُکْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ هَذَا الْمَکَانِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَی مُوسَی لَوْلَا أَنَّهُ عَجَّلَ لَرَأَی الْعَجَبَ وَلَکِنَّهُ أَخَذَتْهُ مِنْ صَاحِبِهِ ذَمَامَةٌ قَالَ إِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَيْئٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا وَلَوْ صَبَرَ لَرَأَی الْعَجَبَ قَالَ وَکَانَ إِذَا ذَکَرَ أَحَدًا مِنْ الْأَنْبِيَائِ بَدَأَ بِنَفْسِهِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَی أَخِي کَذَا رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا فَانْطَلَقَا حَتَّی إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ لِئَامًا فَطَافَا فِي الْمَجَالِسِ فَ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِکَ وَأَخَذَ بِثَوْبِهِ قَالَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا أَمَّا السَّفِينَةُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ فَإِذَا جَائَ الَّذِي يُسَخِّرُهَا وَجَدَهَا مُنْخَرِقَةً فَتَجَاوَزَهَا فَأَصْلَحُوهَا بِخَشَبَةٍ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَطُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ کَافِرًا وَکَانَ أَبَوَاهُ قَدْ عَطَفَا عَلَيْهِ فَلَوْ أَنَّهُ أَدْرَکَ أَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَکُفْرًا فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَکَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا وَأَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَکَانَ تَحْتَهُ إِلَی آخِرِ الْآيَةِ

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے لوگوں سامنے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی آزمائشوں کے بارے میں نصیحتیں فرما رہے تھے اور انہوں نے فرمایا میرے علم میں نہیں ہے کہ ساری دنیا میں کوئی آدمی مجھ سے بہتر ہو یا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میں اس آدمی کو جانتا ہوں کہ جو تجھ سے بہتر ہے یا تجھ سے زیادہ علم والا ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے پروردگار مجھے اس آدمی سے ملا دے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ کو حکم دیا گیا کہ ایک مچھلی کو نمک لگا کر اپنے توشہ میں رکھ جس جگہ وہ مچھلی گم ہو جائے اس جگہ پر وہ آدمی تمہیں مل جائے گا حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی یہ سن کر چل پڑے یہاں تک کہ صخرہ کے مقام پر پہنچ گئے اس جگہ کوئی آدمی نہ ملا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے کہا میں اللہ کے نبی سے ملوں اور ان کو اس کی خبر دوں پھر وہ حضرت موسیٰ سے اس واقعہ کا ذکر بھول گئے تو جب ذرا آگے بڑھ گئے تو حضرت موسیٰ نے اپنے ساتھی سے کہا ناشتہ لاؤ اس سفر نے ہمیں تھکا دیا ہے اور حضرت موسیٰ کو یہ تھکاوٹ اس جگہ سے آگے بڑھنے سے ہوئی حضرت موسیٰ کے ساتھی نے یاد کیا اور کہنے لگا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب ہم صخرہ کے مقام پر پہنچے تو میں مچھلی کو بھول گیا اور سوائے شیطان کے یہ مجھے کسی نے نہیں بھلایا بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ مچھلی نے سمندر میں اپنا راستہ بنا لیا حضرت موسیٰ کے ساتھی نے وہ جگہ بتا دی جس جگہ مچھلی گم ہوگئی تھی اس جگہ پر حضرت موسیٰ تلاش کر رہے تھے کہ حضرت موسیٰ نے اس جگہ حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھ لیا کہ یہ ایک کپڑا اوڑھے ہوئے چت لیٹے ہوئے ہیں حضرت موسیٰ نے فرمایا السلام علیکم! حضرت خضر علیہ السلام نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا وعلیکم السلام! آپ کون؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کون موسیٰ ؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے موسیٰ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کیسے آنا ہوا؟ حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! اپنے علم میں سے کچھ مجھے بھی دکھا دو حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے اور جن چیزوں کا تمہیں علم نہ ہو تو تم ان پر کیسے صبر کر سکو گے تو اگر تم صبر نہ کر سکو گے تو مجھے بتا دو کہ میں اس وقت کیا کروں حضرت موسیٰ فرمانے لگے کہ اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے صبر کرنے والا ہی پاؤ گے اور میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اچھا اگر تم نے میرے ساتھ رہنا ہے تو تم نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھنا جب تک کہ میں خود ہی تمہیں اس کے بارے میں بتا نہ دوں پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے حضرت خضر علیہ السلام نے اس کشتی کا تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ بول پڑھے کہ آپ نے کشتی کو توڑ دیا تاکہ اس کشتی والے غرق ہو جائیں آپ نے بڑا عجیب کام کیا ہے حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا اے موسیٰ ! کیا میں تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکو گے حضرت موسیٰ نے فرمایا جو بات میں بھول گیا ہوں آپ اس پر میرا مؤ اخذہ نہ کریں اور مجھے تنگی میں نہ ڈالیں پھر دونوں حضرات چلے یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ پر آ گئے کہ جہاں کچھ لڑکے کھیل رہے تھے حضرت خضر علیہ السلام نے بغیر سوچے سمجھے ان لڑکوں میں سے ایک لڑکے کو پکڑا اور سے قتل کر دیا حضرت موسیٰ یہ دیکھ کر گھبرا گئے اور فرمایا آپ نے ایک بے گنا لڑکے کو قتل کر دیا یہ کام تو آپ نے بڑی ہی نازیبا کیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اور حضرت موسیٰ پر رحم فرمائے اگر موسیٰ جلدی نہ کرتے تو بہت ہی عجیب عجیب باتیں ہم دیکھتے لیکن حضرت موسیٰ کو حضرت خضر سے شرم آ گئی اور فرمایا اگر اب میں آپ سے کوئی بات پوچھوں تو آپ میرا ساتھ چھوڑ دیں کیونکہ میرا عذر معقول ہے اور اگر حضرت موسیٰ صبر کرتے تو عجیب باتیں دیکھتے اور آپ جب بھی انبیاء علیہ السلام میں سے کسی کو یاد فرماتے تو فرماتے کہ ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور میرے فلاں بھائی پر اللہ کی رحمت ہو پھر وہ دونوں حضرات (حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے اس گاؤں کے لوگ بڑے کنجوس تھے یہ دونوں حضرات سب مجلسوں میں گھومے اور کھانا طلب کیا لیکن ان گاؤں والوں میں سے کسی نے بھی ان دونوں حضرات کی مہمان نوازی نہیں کی پھر انہوں نے وہاں ایک ایسی دیوار کو پایا کہ جو گرنے کے قریب تھی تو حضرت خضر علیہ السلام نے اس دیوار کو سیدھا کھڑا کر دیا حضرت موسیٰ نے فرمایا اے خضر! اگر آپ چاہتے تو ان لوگوں سے اس دیوار کے سیدھا کرنے کی مزدوری لے لیتے حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ بس اب میرے اور تیرے درمیان جدائی ہے اور حضرت خضر علیہ السلام حضرت موسیٰ کا کپڑا پکڑ کر فرمایا کہ میں اب آپ کو ان کاموں کا راز بتاتا ہوں کہ جن پر تم صبر نہ کر سکے کشتی تو ان مسکینوں کی تھی کہ جو سمندر میں مزدوری کرتے تھے اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ظلما کشتیوں کو چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ میں اس کشتی کو عیب دار کر دوں تو جب کشتی چھیننے والا آیا تو اس نے کشتی کو عیب دار سمجھ کر چھوڑ دیا اور وہ کشتی آگے بڑھ گئی اور کشتی والوں نے ایک لکڑی لگا کر اسے درست کر لیا اور وہ لڑکا جسے میں نے قتل کیا ہے فطرةً کافر تھا اس کے ماں باپ اس سے بڑا پیار کرتے تھے تو جب وہ بڑا ہوا تو وہ اپنے ماں باپ کو بھی سرکشی میں پھنسا دیتا تو ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس لڑکے کے بدلہ میں دوسرا لڑکا عطا فرما دے جو کہ اس سے بہتر ہو اور وہ دیوار جسے میں نے درست کیا وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جس کے نیچے خزانہ تھا آخر آیت تک

Sa, id b. jubair reported that it was said to Ibn 'Abbas that Nauf al-Bikali was of the opinion that Moses who went in search of knowledge was not the Moses of Bani Isra'il. He said: Sa'id, did you hear it from him? I said: Yes. Thereupon he said that Nauf had not stated the fact. Ubayy b. Ka'b narrated to us that he had heard Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: Moses had been delivering sermons to his people. And he made this remark: No person upon the earth has better knowledge than I or nothing better than mine. Thereupon Allah revealed to him: I know one who is better than you (in knowledge) or there is a person on the earth having more knowledge than you. Thereupon he said: My Lord, direct me to him. It was said to him: Keep a salted fish as a provision for journey. The place where that fish would be lost (there you will find that man). So he set forth and a young slave along with him until they came to a place Sakhra, but he did not find any clue. So he proceeded on and left that young man there. The fish began to stir in water and the water assumed the form of an ark over the fish. The young man said: I should meet Allah's Apostle (peace be upon him) and inform him, but he was made to forget and when they had gone beyond that place, he (Moses) said to the young man: Bring breakfast. We have been exhausted because of the journey, and he (Moses) was not exhausted until he had crossed that (particular) place (where he had) to meet Khadir, and the youth was reminded and said: Did you not see that as we reached Sakhra I forgot the fish and it is satan alone who has made me forgetful of it'? It is strange that he has been able to find way in the ocean too. He said: This is what we sought for us.
They returned retracing their steps, and he (his companion) pointed to him the location (where) the fish (had been lost). Moses began to search him there. He suddenly saw Khadir wrapped in a cloth and lying on his back. He said to him: As-Salamu-'Alaikum. He removed the cloth from his face and said: Wa 'Alaikum-us-Salam! Who are you? He said: I am Moses. He said: Who Moses? He said: Moses of Bani Isra'il. He said: What brought you here? He said: I have come so that you may teach me what you have been taught of righteousness. He said: You shall have to bear with me, and how can you have patience about a thing of which you have no comprehensive knowledge? You will not have patience when you see me doing a thing I have been ordered to do. He said: If Allah pleases, you will find me patient, nor shall I disobey you in aught. Khadir said: If you follow me, don't ask me about anything until I explain it to you. So they went on until they embarked upon a boat. He (Khadir) made a hole in that. Thereupon he (Moses) said: You have done this so that you may drown the persons sitting in the boat. You have done something grievous. Thereupon he said: Did I not tell you that you will not be able to bear with me? He (Moses) said: Blame me not for what I forgot and be not hard upon me for what I did. (Khadir gave him another chance.) So they went on until they reached a place where boys were playing. He went to one of them and caught hold of him (apparently) at random and killed him. Moses (peace be upon him) felt agitated and said: You have killed an innocent person not guilty of slaying another. You have done something abominable .
Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: May Allah have mercy upon us and Moses. Had he shown patience he would have seen wonderful things, but fear of blame, with respect to his companion, seized him and he said: If I ask anything after this, keep not company with me. You will then have a valid excuse in my case. He (the narrator) said: Whenever he (the Holy Prophet) made mention of any Prophet, he always said: May there be mercy of Allah upon us and upon my brother so and so. They, however, proceeded on until they came to the inhabitants of a village who were very miserly. They went to the meeting places and asked for hospitality but they refused to show any hospitality to them. They both found in that village a wall which was about to fall. He (Khadir) set it right. Thereupon he (Moses) said: If you so liked, you could get wages for it. Thereupon he said: This is the parting of ways between me and you, and, taking hold of his cloth, he said: Now I will explain to you the real significance (of all these acts) for which you could not show patience. As for the boat, it belonged to the poor people working on the river and I intended to damage it for there was ahead of them (a king) who seized boats by force. (When he came) to catch hold of it he found it a damaged boat, so he spared it (and later on) it was set right with wood. So far as the boy is concerned, he has been by very nature, an unbeliever, whereas his parents loved him very much. Had he grown up he would have involved them in wrongdoing and unbelief, so we wished that their Lord should give them in his place one better in purity and close to mercy. And as for the wall it belonged to two orphan boys in the city and there was beneath it a (treasure) belonging to them,… up to the last verse.

یہ حدیث شیئر کریں