صحیح مسلم ۔ جلد سوم ۔ فضائل کا بیان ۔ حدیث 1858

ابوذر رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بیان میں

راوی: ہداب بن خالد ازدی سلیمان بن مغیرہ حمید بن ہلال عبداللہ بن صامت ابوذر

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ وَکَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ فَخَرَجْتُ أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ وَأُمُّنَا فَنَزَلْنَا عَلَی خَالٍ لَنَا فَأَکْرَمَنَا خَالُنَا وَأَحْسَنَ إِلَيْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ فَقَالُوا إِنَّکَ إِذَا خَرَجْتَ عَنْ أَهْلِکَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ فَجَائَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ فَقُلْتُ أَمَّا مَا مَضَی مِنْ مَعْرُوفِکَ فَقَدْ کَدَّرْتَهُ وَلَا جِمَاعَ لَکَ فِيمَا بَعْدُ فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا وَتَغَطَّی خَالُنَا ثَوْبَهُ فَجَعَلَ يَبْکِي فَانْطَلَقْنَا حَتَّی نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَکَّةَ فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا وَعَنْ مِثْلِهَا فَأَتَيَا الْکَاهِنَ فَخَيَّرَ أُنَيْسًا فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا وَمِثْلِهَا مَعَهَا قَالَ وَقَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَی رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ سِنِينَ قُلْتُ لِمَنْ قَالَ لِلَّهِ قُلْتُ فَأَيْنَ تَوَجَّهُ قَالَ أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي أُصَلِّي عِشَائً حَتَّی إِذَا کَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ کَأَنِّي خِفَائٌ حَتَّی تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ فَقَالَ أُنَيْسٌ إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَکَّةَ فَاکْفِنِي فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّی أَتَی مَکَّةَ فَرَاثَ عَلَيَّ ثُمَّ جَائَ فَقُلْتُ مَا صَنَعْتَ قَالَ لَقِيتُ رَجُلًا بِمَکَّةَ عَلَی دِينِکَ يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ قُلْتُ فَمَا يَقُولُ النَّاسُ قَالَ يَقُولُونَ شَاعِرٌ کَاهِنٌ سَاحِرٌ وَکَانَ أُنَيْسٌ أَحَدَ الشُّعَرَائِ قَالَ أُنَيْسٌ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْکَهَنَةِ فَمَا هُوَ بِقَوْلِهِمْ وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَی أَقْرَائِ الشِّعْرِ فَمَا يَلْتَئِمُ عَلَی لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي أَنَّهُ شِعْرٌ وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ وَإِنَّهُمْ لَکَاذِبُونَ قَالَ قُلْتُ فَاکْفِنِي حَتَّی أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ قَالَ فَأَتَيْتُ مَکَّةَ فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ فَقُلْتُ أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ فَأَشَارَ إِلَيَّ فَقَالَ الصَّابِئَ فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِکُلٍّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّی خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ قَالَ فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ کَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ قَالَ فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَائَ وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا وَلَقَدْ لَبِثْتُ يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ مَا کَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِي وَمَا وَجَدْتُ عَلَی کَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ قَالَ فَبَيْنَا أَهْلِ مَکَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَائَ إِضْحِيَانَ إِذْ ضُرِبَ عَلَی أَسْمِخَتِهِمْ فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ وَامْرَأَتَيْنِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا وَنَائِلَةَ قَالَ فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا فَقُلْتُ أَنْکِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَی قَالَ فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا قَالَ فَأَتَتَا عَلَيَّ فَقُلْتُ هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ غَيْرَ أَنِّي لَا أَکْنِي فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ وَتَقُولَانِ لَوْ کَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا قَالَ فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ قَالَ مَا لَکُمَا قَالَتَا الصَّابِئُ بَيْنَ الْکَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا قَالَ مَا قَالَ لَکُمَا قَالَتَا إِنَّهُ قَالَ لَنَا کَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ وَجَائَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی اسْتَلَمَ الْحَجَرَ وَطَافَ بِالْبَيْتِ هُوَ وَصَاحِبُهُ ثُمَّ صَلَّی فَلَمَّا قَضَی صَلَاتَهُ قَالَ أَبُو ذَرٍّ فَکُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ قَالَ فَقُلْتُ السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ وَعَلَيْکَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ مَنْ أَنْتَ قَالَ قُلْتُ مِنْ غِفَارٍ قَالَ فَأَهْوَی بِيَدِهِ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ عَلَی جَبْهَتِهِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي کَرِهَ أَنْ انْتَمَيْتُ إِلَی غِفَارٍ فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ وَکَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ قَالَ مَتَی کُنْتَ هَاهُنَا قَالَ قُلْتُ قَدْ کُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ قَالَ فَمَنْ کَانَ يُطْعِمُکَ قَالَ قُلْتُ مَا کَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَائُ زَمْزَمَ فَسَمِنْتُ حَتَّی تَکَسَّرَتْ عُکَنُ بَطْنِي وَمَا أَجِدُ عَلَی کَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ قَالَ إِنَّهَا مُبَارَکَةٌ إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ائْذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَکْرٍ وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا فَفَتَحَ أَبُو بَکْرٍ بَابًا فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ وَکَانَ ذَلِکَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَکَلْتُهُ بِهَا ثُمَّ غَبَرْتُ مَا غَبَرْتُ ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ لَا أُرَاهَا إِلَّا يَثْرِبَ فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَکَ عَسَی اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِکَ وَيَأْجُرَکَ فِيهِمْ فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا فَقَالَ مَا صَنَعْتَ قُلْتُ صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ قَالَ مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِکَ فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَأَتَيْنَا أُمَّنَا فَقَالَتْ مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِکُمَا فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَاحْتَمَلْنَا حَتَّی أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ وَکَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَائُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَکَانَ سَيِّدَهُمْ وَقَالَ نِصْفُهُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ الْبَاقِي وَجَائَتْ أَسْلَمُ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِخْوَتُنَا نُسْلِمُ عَلَی الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ فَأَسْلَمُوا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَأسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ

ہداب بن خالد ازدی سلیمان بن مغیرہ حمید بن ہلال عبداللہ بن صامت حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم اپنی قوم غفار سے نکلے اور وہ حرمت والے مہینے کو بھی حلال جانتے تھے پس میں اور میرا بھائی انیس اور ہماری والدہ نکلے پس ہم اپنے ماموں کے ہاں اترے پس ہمارے ماموں نے اعزاز واکرام کیا اور خوب خاطر مدارت کی جس کی وجہ سے ان کی قوم نے ہم پر حسد کیا تو انہوں نے کہا (ماموں سے) کہ جب تو اپنے اہل سے نکل کر جاتا ہے تو انیس ان سے بدکاری کرتا ہے پس ہمارے ماموں آئے اور انہیں جو کچھ کہا گیا تھا وہ الزام ہم پر لگا میں نے کہا تو نے ہمارے ساتھ جو احسان و نیکی کی تھی اسے تو نے اس الزام کے وجہ سے خراب کردیا ہے پس اب اس کے بعد ہمارا آپ سے تعلق اور نبھاؤ نہیں ہو سکتا پس ہم اپنے اونٹوں کے قریب آئے اور ان پر اپنا سامان سوار کیا اور ہمارے ماموں نے کپڑا ڈال کر رونا شروع کردیا پس ہم چل پڑے یہاں تک کہ مکہ کے قریب پہنچے پس انیس نے ہمارے اونٹوں اور اتنے ہی اور اونٹوں پر شرط لگائی (شاعری میں) کہ کس کے اونٹ عمدہ ہیں پس وہ دونوں کاہن کے پاس گئے تو اس نے انہیں کے اونٹوں کو پسند کیا پس انیس ہمارے پاس ہمارے اونٹوں کو اور اتنے ہی اور اونٹوں کو لے کر آیا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات سے تین سال پہلے ہی اے میرے بھیجتے نماز پڑھا کرتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کس کی رضا کے لئے انہوں نے کہا اللہ کی رضا کے لئے میں نے کہا تو اپنا رخ کس طرف کرتا تھا انہوں نے کہا جہاں میرا رب رخ کر دیتا اسی طرف میں عشاء کی نماز ادا کرلیتا تھا یہاں تک کہ جب رات کا آخری حصہ ہوتا تو میں اپنے آپ کو اس طرح ڈال لیتا گویا کہ میں چادر ہی ہوں یہاں تک کہ سورج بلند ہو جاتا انیس نے کہا مجھے مکہ میں ایک کام ہے تو میرے معاملات کی دیکھ بھال کرنا پس انیس چلا یہاں تک کہ مکہ آیا اور کچھ عرصہ کے بعد واپس آیا تو میں نے کہا تو نے کیا کیا اس نے کہا میں مکہ میں ایک آدمی سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اللہ نے اسے (رسول بنا کر) بھیجا ہے میں نے کہا لوگ کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا لوگ اسے شاعر، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں اور انیس خود شاعروں میں سے تھا انیس نے کہا میں کاہنوں کی باتیں سن چکا ہوں پس اس کا کلام کاہنوں جیسا نہیں ہے اور تحقیق میں نے اس کے اقوال کا شعراء کے اشعار سے بھی موزانہ کیا لیکن کسی شخص کی زبان پر ایسے شعر بھی مناسب نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ سچا ہے اور دوسرے لوگ جھوٹے ہیں میں نے کہا تم میرے معاملات کی نگرانی کرو یہاں تک کہ میں جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں پس میں مکہ میں آیا اور ان میں سے ایک کمزور آدمی کو مل کر پوچھا کہ وہ کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو؟ پس اس نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ دین بدلنے والا ہے پس وادی والوں میں سے ہر ایک سنتے ہی مجھ پر ڈھیلوں اور ہڈیوں کے ساتھ ٹوٹ پڑا یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو کر گر پڑا پس جب میں بے ہوشی سے ہوش میں آ کر اٹھا تو میں گویا سرخ بت(خون میں لت پت) تھا میں زمزم کے پاس آیا اور اپنا خون دھویا پھر اس کا پانی پیا اور میں اے بھتیجے تین رات اور دن وہاں ٹھہرا رہا اور میرے لئے زمزم کے پانی کے سوا کوئی خوراک نہ تھی پس میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہو گئیں اور نہ ہی میں نے اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی محسوس کی پس اس دوران ایک چاندنی رات میں جب اہل مکہ سو گئے اور اس وقت کوئی بھی بیت اللہ کا طواف نہیں کرتا تھا اور ان میں سے دو عورتیں اساف اور نائلہ (بتوں) کو پکار رہی تھیں پس وہ جب اپنے طواف کے دوران میری طرف آئیں تو میں نے کہا ان میں سے ایک(بت) کا دوسرے کے ساتھ نکاح کر دو (اساف مرد اور نائلہ عورت تھی اور باعتقاد مشرکین مکہ کے مطابق یہ دونوں زنا کرتے وقت مسخ ہوکر بت ہو گئے تھے) لیکن وہ اپنی بات سے باز نہیں آئیں پس جب وہ میرے قریب آئیں تو میں نے بغیر کنایہ اور اشارہ کے فلاں کہہ دیا کہ فلاں کے (فرج میں) لکڑی۔ پس وہ چلاتی اور یہ کہتی ہوئی گئیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی موجود ہوتا راستہ میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہاڑی سے اترتے ہوئے ملے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے انہوں نے کہا کعبہ اور اس کے پردوں کے درمیان ایک دین کو بدلنے والا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے کیا کہا ہے انہوں نے کہا اس نے ہمیں ایسی بات کہی ہے جو منہ کو بھر دیتی ہے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ حجر اسود کا بوسہ لیا اور بیت اللہ کا طواف کیا پھر نماز ادا کی حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں وہ پہلا آدمی ہوں جس نے اسلام کے طریقہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول آپ پر سلام ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو کون ہے؟ میں نے عرض کیا میں قبیلہ غفار سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا قبیلہ غفار سے ہونا ناپسند ہوا ہے پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نے مجھے پکڑ لیا اور وہ مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واقفیت رکھتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا تو یہاں کب سے ہے میں نے عرض کیا میں یہاں تین دن رات سے ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے کھانا کون کھلاتا ہے میں نے عرض کیا میرے لئے زمزم کے پانی کے علاوہ کوئی کھانا نہیں ہے پس اس سے موٹا ہو گیا ہوں یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بل مڑ گئے ہیں اور میں اپنے جگر میں بھوک کی وجہ سے گرمی بھی محسوس نہیں کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پانی بابرکت ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھی بھر دیتا ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے اس کے رات کے کھانے کی اجازت دے دیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چلے اور میں بھی ان کے ساتھ ساتھ چلا پس ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دروازہ کھولا اور میرے لئے طائف کی کشمش نکالنے لگے اور یہ میرا پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا پھر میں رہا جب تک رہا پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے کھجوروں والی زمین دکھائی گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ وہ یثرب کے علاوہ کوئی اور علاقہ نہیں ہے کیا تو میری طرف سے اپنی قوم کو تبلیغ کرے گا عنقریب اللہ انہیں تیری وجہ سے فائدہ عطا کرے گا اور تمہیں ثواب عطا کیا جائے گا پھر میں انیس کے پاس آیا تو اس نے کہا تونے کیا کیا؟ میں نے کہا میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور تصدیق کر چکا ہوں اس نے کہا مجھے بھی تجھ سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام قبول کرتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں پھر ہم اپنی والدہ کے پاس گئے تو اس نے کہا مجھے تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں میں بھی اسلام قبول کرتی اور تصدیق کرتی ہوں پھر ہم نے اپنا سامان لادا اور اپنی قوم غفار کے پاس آئے تو ان میں سے آدھے لوگ مسلمان ہو گئے اور ان کی امامت ان کے سرادر ایماء بن رحضہ انصاری کراتے تھے اور باقی آدھے لوگوں نے کہا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہو جائیں گے پس جب رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو باقی آدھے لوگ بھی مسلمان ہو گئے اور قبیلہ اسلام کے لوگ بھی حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم بھی اس بات پر اسلام قبول کرتے ہیں جس پر ہمارے بھائی مسلمان ہوئے ہیں پس وہ بھی مسلمان ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبیلہ غفار کو اللہ نے معاف فرما دیا اور قبیلہ کی اللہ نے حفاظت کی (قتل اور قید سے)

'Abdullah b. Samit reported that Abu Dharr said: We set out from our tribe Ghafir who look upon the prohibited months as permissible months. I and my brother Unais and our mother stayed with our maternal uncle who treated us well. The men of his tribe fell jealous and they said: When you are anay from your house, Unais commits adultery with your wife. Our -naternal uncle came and he accused us of the sin which was conveyed to him. I said: You have undone the good you did to us. We cannot stay with you after this. We came to our camels and loaded (our) luggage. Our maternal uncle began to weep covering himself with (a piece of) cloth. We proceeded on until we encamped by the side of Mecca. Unais cast lot on the camels (we had) and an equal number (above that). They both went to a Kahin and he made Unais win and Unais came with our camels and an equal number along with them. He (Abu Dharr) said: My nephew, I used to observe prayer three years before my meeting with Allah's Messenger (may peace be upon him). I said: For whom did you say prayer? He said: For Allah. I said: To which direction did you turn your face (for observing prayer)? He said: I used to turn my face as Allah has directed me to turn my face. I used to observe the night prayer at the time of the end of night and I fell down in prostration like the mantle until the sun rose over me. Unais said: I have a work in Mecca, so you better stay here.
Unais went until he came to Mecca and he came to me late. I said: What did you do? He said: I met a person in Mecca who is on your religion and he claims that verily it is Allah Who has sent him. I said: What do the people say about him? He said: They say that he is a poet or a Kahin or a magician. Unais who was himself one of the poets said. I have heard the words of a Kahin but his words in no way resemble his (words). And 1 also compared his words to the verses of poets but such words cannot be uttered by any poet. By Allah, he is truthful and they are liars. Then I said: you stay here, until I go, so that I should see him. He said: I came to Mecca and I selected an insignificant person from amongst them and said to him: Where is he whom you call as-Sabi? He pointed out towards me saying: He is Sabi. Thereupon the people of the valley attacked me with sods and bows until I fell down unconscious. I stood up after havin. regained my consciousness and I found as if I was a red idol. I came to Zamzarn and washed blood from me and drank water from it and listen, O son of my brother, I stayed there for thirty nights or days and there was no food for me but the water of Zamzarn. And I became so bulky that there appeared wrinkles upon my stomach, and I did not feel any hunger in my stomach. It was during this time that the people of Mecca slept in the moonlit night and none was there to eircumambulate the House but only two women who had been invoking the name of Isafa, and Na'ila (the two idols).
They came to me while in their circuit and I said: Marry one with the other, but they did not dissuade from their invoking. They came to me and I said to them: Insert wood (in the idols' private parts). (I said this to them in such plain words) as I could not express in metaphorical terms. These women went away crying and saying: Had there been one amongst our people (he would have taught a lesson to you for the obscene words used for our idols before us). These women met Allah's Messenger (may peace be upon him) and Abu Bakr who had also been coming down the hill. He asked them: What has happened to you? They said: There is Sabi, who has hidden himself between the Ka'ba and its curtain. He said: What did he say to you? They said: He uttered such words before us as we cannot express. Allah's Messenger (may peace be upon him) came and he kissed the Black Stone and circumambulated the House along with his Companion and then observed prayer, and when he had finished his prayer, Abu Dharr said: I was the first to greet him with the salutation of peace and uttered (these words) in this way; Allah's Messen- ger, may there be peace upon you, whereupon he said: It may be upon you too and the mercy of Allah. He then said: Who are you? I said: From the tribe of Ghifar. He leaned his hand and placed his finger on his forehead and I said to myself: Perhaps he has not liked it that I belong to the tribe of Ghifar.
I attempted to catch hold of his hand but his friend who knew about him more than I dissuaded me f rom doing so. He then lifted his head and said: Since how long have you been here? I said: I have been here for the last thirty nights or days. He said: Who has been feeding you? I said: There has been no food for me but the water of Zamzam. I have grown so bulky that there appear wrinkles upon my stomach and I do not feel any hunger. He said: It is blessed (water) and it also serves as food. Thereupon Abu Bakr said: Allah's Messenger, let me serve as a host to him for tonight, and then Allah's Messenger (may peace be upon him) proceeded forth and so did Abu Bakr and I went along with them. Abu Bakr opened the door and then he brought for us the raisins of Ta'if and that was the first food which I ate there. Then I stayed as long as I had to stay. I then came to Allah's Messenaer (may peace be upon him) and he said: I have been shown the land abound- ing in trees and I think it cannot be but that of Yathrib (that is the old name of Medina). You are a preacher to your people on my behalf. I hope Allah would benefit them through you and He would reward you. I came to Unais and he said: What have you done? I said: I have done that I have embraced Islam and I have testified (to the prophethood of Allah's Messenger). He said: I have no aversion for your religion and I also embrace Islam and testify (to the prophethood of Muhammad). Then both of us came to our mother and she said: I have no aversion for your religion and I also embrace Islam and testify to the prophethood of Muhammad. We then loaded our camels and came to our tribe Ghifir and half of the tribe embraced Islam and their chief was Aimi' b. Rahada Ghifirl and he was their leader and hall of the tribe said: We will embrace Islam when Allah's Messenger (may p,. ace be upon him) would come to Medina, and when Allah's Messenger (may peace be upon him) came to Medina the remaining half also embraced Islam. Then a tribe Aslam came to the Holy Prophet (may peace be upon him) and said: Allah's Messenger, we also embrace Islam like our brothers who have embraced Islam. And they also embraced Islam. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Allah granted pardon to the tribe of Ghifar and Allah saved (from destruction) the tribe of Aslam.

یہ حدیث شیئر کریں