سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ نکاح کا بیان ۔ حدیث 296

اس کا بیان کہ بڑے ہو کر بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے

راوی: احمد بن صالح , عنبسہ , یونس , ابن شہاب , عروہ بن زبیر , عائشہ اور ام سلمہ ا

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا حُذَيْفَةَ بْنَ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ کَانَ تَبَنَّی سَالِمًا وَأَنْکَحَهُ ابْنَةَ أَخِيهِ هِنْدَ بِنْتَ الْوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَهُوَ مَوْلًی لِامْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ کَمَا تَبَنَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا وَکَانَ مَنْ تَبَنَّی رَجُلًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ دَعَاهُ النَّاسُ إِلَيْهِ وَوُرِّثَ مِيرَاثَهُ حَتَّی أَنْزَلَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی فِي ذَلِکَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ إِلَی قَوْلِهِ فَإِخْوَانُکُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيکُمْ فَرُدُّوا إِلَی آبَائِهِمْ فَمَنْ لَمْ يُعْلَمْ لَهُ أَبٌ کَانَ مَوْلًی وَأَخًا فِي الدِّينِ فَجَائَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ ثُمَّ الْعَامِرِيِّ وَهِيَ امْرَأَةُ أَبِي حُذَيْفَةَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا کُنَّا نَرَی سَالِمًا وَلَدًا وَکَانَ يَأْوِي مَعِي وَمَعَ أَبِي حُذَيْفَةَ فِي بَيْتٍ وَاحِدٍ وَيَرَانِي فُضْلًا وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِمْ مَا قَدْ عَلِمْتَ فَکَيْفَ تَرَی فِيهِ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْضِعِيهِ فَأَرْضَعَتْهُ خَمْسَ رَضَعَاتٍ فَکَانَ بِمَنْزِلَةِ وَلَدِهَا مِنْ الرَّضَاعَةِ فَبِذَلِکَ کَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَأْمُرُ بَنَاتِ أَخَوَاتِهَا وَبَنَاتِ إِخْوَتِهَا أَنْ يُرْضِعْنَ مَنْ أَحَبَّتْ عَائِشَةُ أَنْ يَرَاهَا وَيَدْخُلَ عَلَيْهَا وَإِنْ کَانَ کَبِيرًا خَمْسَ رَضَعَاتٍ ثُمَّ يَدْخُلُ عَلَيْهَا وَأَبَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَسَائِرُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُدْخِلْنَ عَلَيْهِنَّ بِتِلْکَ الرَّضَاعَةِ أَحَدًا مِنْ النَّاسِ حَتَّی يَرْضَعَ فِي الْمَهْدِ وَقُلْنَ لِعَائِشَةَ وَاللَّهِ مَا نَدْرِي لَعَلَّهَا کَانَتْ رُخْصَةً مِنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسَالِمٍ دُونَ النَّاسِ

احمد بن صالح، عنبسہ، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدالشمس نے سالم کو بیٹا بنا لیا تھا اور ان سے اپنے بھائی کی بیٹی ہندہ بنت الولید بن عتبہ بن ربیعہ کا نکاح کر دیا تھا اور وہ یعنی سالمی ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے (یہ بیٹا لینا ایسا ہی تھا) جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا اور زمانہ جاہلیت میں یہ طریقہ رائج تھا کہ جو شخص کسی کو بیٹا بناتا لوگ بچے کو اسی کی طرف منسوب کرتے (جیسا کہ زید کو زید بن محمد کہتے تھے) اور (مرنے کے بعدحقیقی بیٹے کی طرح) اس کو اس کا وارث قرار دیتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہ آیت نازل فرمائی (اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَا ى ِهِمْ۔۔۔۔ فی الدین ) 33۔ الاحزاب : 5) یعنی ان کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارو اللہ کے نزدیک یہی صحیح اور مبنی برحقیقت ہے اور اگر تم ان کے باپوں سے ناواقف ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور آزاد کردہ غلام اس حکم کے نزول کے بعد لوگ لے پالکوں یعنی منہ بولے بیٹے کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارنے لگے اور جس کا باپ معلوم نہ ہو سکا اس کو مولیٰ اور دینی بھائی قرار دیا تو ابوحذیفہ کی بیوی سہلہ بنت سہیل بن عمرو القرشی ثم العامری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تو سالم کو اپنے حقیقی بیٹے کی طرح ہی سمجھتے تھے اور وہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا تھا (جس طرح اپنے بچے رہتے ہیں) اور وہ مجھ کو گھریلو اور تنہائی کے لباس میں دیکھتا تھا اور اب اللہ نے منہ بولے بیٹوں کے بارے میں جو حکم فرمایا ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں پس فرمائیے اب ہمارے لئے کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو اس کو دودھ پلا دے پس انہوں نے پانچ مرتبہ دودھ پلا دیا اس کے بعد وہ اس دودھ پینے کی وجہ سے وہ ان کا رضاعی بیٹا سمجھا جانے لگا اس واقعہ سے استدلال کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنی بھتیجیوں بھانجیوں کو اس کو پانچ مرتبہ دودھ پلانے کا حکم فرمائیں جس کو وہ دیکھنا چاہتیں یا یہ چاہتیں کہ وہ ان کے پاس آیا جایا کرے اگرچہ وہ بڑا ہوتا اور اس کے بعد وہ ان کے پاس آتا جاتا لیکن حضرت ام سلمہ اور باقی دیگر ازواج مطہرات اس بات سے انکار کرتیں کہ کوئی ان کے پاس ایسی رضاعت کی بنا پر آیا جایا کرے جب تک کہ بچپن کی رضاعت نہ ہوتی (اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا استدلال میں اس واقعہ کو پیش کرتیں تو) وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرماتیں واللہ ہم نہیں جانتیں ممکن ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ رخصت صرف سالم کو دی ہو باقی دوسرے لوگوں کو نہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں