دوران نماز گفتگو کرنے سے متعلق
راوی: اسحاق بن منصور , محمد بن یوسف , اوزاعی , یحیی بن ابوکثیر , ہلال بن ابومیمونہ , عطاء بن یسار , معاویہ بن حکم سلمی
أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيرٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عَطَائُ بْنُ يَسَارٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَکَمِ السَّلَمِيِّ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ فَجَائَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ رِجَالًا مِنَّا يَتَطَيَّرُونَ قَالَ ذَاکَ شَيْئٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ وَرِجَالٌ مِنَّا يَأْتُونَ الْکُهَّانَ قَالَ فَلَا تَأْتُوهُمْ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرِجَالٌ مِنَّا يَخُطُّونَ قَالَ کَانَ نَبِيٌّ مِنْ الْأَنْبِيَائِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطُّهُ فَذَاکَ قَالَ وَبَيْنَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقُلْتُ يَرْحَمُکَ اللَّهُ فَحَدَّقَنِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ فَقُلْتُ وَا ثُکْلَ أُمِّيَاهُ مَا لَکُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ قَالَ فَضَرَبَ الْقَوْمُ بِأَيْدِيهِمْ عَلَی أَفْخَاذِهِمْ فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسَکِّتُونِي لَکِنِّي سَکَتُّ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانِي بِأَبِي وَأُمِّي هُوَ مَا ضَرَبَنِي وَلَا کَهَرَنِي وَلَا سَبَّنِي مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ قَالَ إِنَّ صَلَاتَنَا هَذِهِ لَا يَصْلُحُ فِيهَا شَيْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّکْبِيرُ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ قَالَ ثُمَّ اطَّلَعْتُ إِلَی غُنَيْمَةٍ لِي تَرْعَاهَا جَارِيَةٌ لِي فِي قِبَلِ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ وَإِنِّي اطَّلَعْتُ فَوَجَدْتُ الذِّئْبَ قَدْ ذَهَبَ مِنْهَا بِشَاةٍ وَأَنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ کَمَا يَأْسَفُونَ فَصَکَکْتُهَا صَکَّةً ثُمَّ انْصَرَفْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَعَظَّمَ ذَلِکَ عَلَيَّ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أَعْتِقُهَا قَالَ ادْعُهَا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَتْ فِي السَّمَائِ قَالَ فَمَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ فَاعْتِقْهَا
اسحاق بن منصور، محمد بن یوسف، اوزاعی، یحیی بن ابوکثیر، ہلال بن ابومیمونہ، عطاء بن یسار، معاویہ بن حکم سلمی سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لوگوں کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ بھی گزرا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام نازل فرمایا اور ہم میں سے کچھ لوگ بدفالی (یعنی برا شگون) لیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ان کے قلب کی حالت ہے تو برا شگون لینا کسی کام سے ان کو نہ منع کرے۔ پھر میں نے کہا کہ ہم میں سے کچھ لوگ نجومی لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ ہرگز نجومی لوگوں کے پاس نہ جاؤ۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے بعض لوگ لکیریں کھینچ لیتے ہیں یعنی زمین کے اوپر یا کسی کاغذ وغیرہ پر لائن کھینچ لیتے ہیں آئندہ کی بات اطلاع دینے کیلئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک پیغمبر حضرات انبیاء میں سے لکیریں کھینچا کرتے تھے (وہ پیغمبر حضرت ادریس علیہ السلام یا حضرت دانیال علیہ السلام تھے اور علم رمل ان کی ایجاد ہے) اب جس شخص کی لکیریں ان کی لکیر جیسی ہوں تو درست ہے ) اور سیکھنے کی گنجائش ہے لیکن معلوم نہیں کہ وہ لکیریں ان کی لکیر جیسی ہیں یا نہیں؟) حضرت معاویہ نے فرمایا کہ پھر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ رہا۔ نماز کی حالت میں کہ اس دوران ایک شخص کو حالت نماز میں چھینک آگئی۔ میں نے نماز کے دوران يَرْحَمُکَ اللَّهُ کہا تو اس پر لوگ مجھ کو غور سے دیکھنے لگ گئے۔ میں نے عرض کیا کہ میری والدہ مجھ پر روئے (مطلب یہ ہے کہ میرا انتقال ہوجائے تم لوگ مجھ کو کس وجہ سے غور سے دیکھ رہے ہو) یہ بات سن کر لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھ رانوں پر مارے مجھ کو خیال ہوا کہ مجھ کو خاموش رہنے کو فرما رہے ہیں۔ اس وجہ سے میں خاموش رہا۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز سے فراغت ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو بلایا۔ پھر میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ تو مجھ کو مارا اور نہ مجھ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور نہ ہی مجھ کو برا کہا۔ میں نے کوئی تعلیم دینے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر نہیں دیکھا۔ تعلیم دینے کے حوالے سے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا نماز کی حالت میں ہم لوگوں کو کسی قسم کی کوئی بات لوگوں کو نہیں کرنا چاہیے۔ نماز میں تو تسبیح ہے یا تکبیر ہے یا تلاوت قرآن کریم ہے۔ حضرت معاویہ نے فرمایا پھر میں اپنی بکریوں میں چلا گیا کہ جس کو میری باندی چرایا کرتی تھی احد پہاڑ اور جوانیہ (یہ ایک گاؤں کا نام ہے جو کہ احد نامی پہاڑ کے نزدیک مدینہ منورہ سے جانب شمال واقع ہے) اس کی جانب گیا تو میں نے دیکھا کہ بھیڑیا ان میں سے ایک بکری کو لے گیا ہے پھر آخر کار میں آدمی تھا جس طریقہ سے دوسرے انسانوں کو غصہ آتا ہے مجھ کو بھی غصہ آتا ہے۔ میں نے اس کو ایک مکہ مارا پھر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا اور یہ بات (باندی کو مارنا) مجھ کو بہت زیادہ ناگوار گزرا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس کو آزاد نہ کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کو بلا لاؤ (چنانچہ میں بلا کر لے آیا اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت کیا اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کس جگہ ہے؟ اس باندی نے جواب دیا آسمان پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ عورت صاحب ایمان ہے تم اس کو آزاد کر دو۔
It was narrated that ‘Abdullah bin Ma’sud said: “I used to come to the Prophet when he was praying, and I would greet him with Salam, he would return my greeting. Then I came to him when he was praying, and he did not return my greeting. When he said the Taslim, he pointed to the people and said: ‘Allah has decreed that in the prayer you should not speak except to remember Allah, and it is not appnoprate for you, and that you should stand before Allah with obedience.” (Hasan)
