جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کرلی تو اب وہ شخص کیا کرے؟
راوی: عیسی بن حماد , لیث , یزید بن ابوحبیب , عمران بن ابوانس , ابوسلمہ , ابوہریرہ
أَخْبَرَنَا عِيسَی بْنُ حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی يَوْمًا فَسَلَّمَ فِي رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَدْرَکَهُ ذُو الشِّمَالَيْنِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنُقِصَتْ الصَّلَاةُ أَمْ نَسِيتَ فَقَالَ لَمْ تُنْقَصْ الصَّلَاةُ وَلَمْ أَنْسَ قَالَ بَلَی وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَدَقَ ذُو الْيَدَيْنِ قَالُوا نَعَمْ فَصَلَّی بِالنَّاسِ رَکْعَتَيْنِ
عیسی بن حماد، لیث، یزید بن ابوحبیب، عمران بن ابوانس، ابوسلمہ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز نماز کی امامت فرمائی اور دو رکعت ادا فرما کر سلام پھیرا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چل پڑے تو ذوالیدین حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! نماز میں کیا کسی قسم کی کوئی کمی واقع ہوگئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھول گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہ تو نماز میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی مجھ کو بھول ہوئی ہے تو ذوالیدین نے عرض کیا ضرور ایک بات پیش آئی ہے اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنا کر بھیجا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں۔پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت (جو کم تھیں وہ) پڑھائیں۔
It was narrated that Abu Hurairah said: “The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم prayed Zuhr or ‘Asr and said the Taslimfollowing two Rak’ahs and left. Dhul-Shimalain bin ‘Amr said to him: ‘Has the prayer been shortened or did you forget?’ The Prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم said: ‘What is Dhul-Yadain saying?’ They said: ‘He is speaking the truth, Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.’ So he led them in praying the two Rak’ahs that he had missed.” (Sahih)
