جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ طلاق اور لعان کا بیان ۔ حدیث 1191

نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی

راوی: احمد بن منیع , ہشیم , عامر , عمر بن شعیب اپنے والد

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِکُ وَلَا عِتْقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِکُ وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِکُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَجَابِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَعَائِشَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْئٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَابِ وَهُوَ قَوْلُ أَکْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ رُوِيَ ذَلِکَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَالْحَسَنِ وَسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ وَعَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَشُرَيْحٍ وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَهَائِ التَّابِعِينَ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ فِي الْمَنْصُوبَةِ إِنَّهَا تَطْلُقُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ وَالشَّعْبِيِّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ قَالُوا إِذَا وَقَّتَ نُزِّلَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ إِذَا سَمَّی امْرَأَةً بِعَيْنِهَا أَوْ وَقَّتَ وَقْتًا أَوْ قَالَ إِنْ تَزَوَّجْتُ مِنْ کُورَةِ کَذَا فَإِنَّهُ إِنْ تَزَوَّجَ فَإِنَّهَا تَطْلُقُ وَأَمَّا ابْنُ الْمُبَارَکِ فَشَدَّدَ فِي هَذَا الْبَابِ وَقَالَ إِنْ فَعَلَ لَا أَقُولُ هِيَ حَرَامٌ و قَالَ أَحْمَدُ إِنْ تَزَوَّجَ لَا آمُرُهُ أَنْ يُفَارِقَ امْرَأَتَهُ و قَالَ إِسْحَقُ أَنَا أُجِيزُ فِي الْمَنْصُوبَةِ لِحَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَإِنْ تَزَوَّجَهَا لَا أَقُولُ تَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ وَوَسَّعَ إِسْحَقُ فِي غَيْرِ الْمَنْصُوبَةِ وَذُکِرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ حَلَفَ بِالطَّلَاقِ أَنَّهُ لَا يَتَزَوَّجُ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ هَلْ لَهُ رُخْصَةٌ بِأَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِ الْفُقَهَائِ الَّذِينَ رَخَّصُوا فِي هَذَا فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَکِ إِنْ کَانَ يَرَی هَذَا الْقَوْلَ حَقَّا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُبْتَلَی بِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ فَلَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَرْضَ بِهَذَا فَلَمَّا ابْتُلِيَ أَحَبَّ أَنْ يَأْخُذَ بِقَوْلِهِمْ فَلَا أَرَی لَهُ ذَلِکَ

احمد بن منیع، ہشیم، عامر، عمر بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم جس چیز پر ملکیت نہیں رکھتا اس میں اس کی نذر صحیح نہیں اس طرح ایسے غلام یا باندی کو آزاد کرنا بھی صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں اور طلاق نہیں اس میں جس کا وہ مالک نہیں ہوتا اس باب میں حضرت علی، معاذ، جابر، ابن عباس، عائشہ سے بھی روایت ہے حدیث عبداللہ بن عمرو حسن صحیح ہے اس باب میں یہ اصح حدیث ہے اکثر علماء صحابہ کا یہ قول ہے علی بن ابی طالب، ابن عباس، جابر، سعید بن مسیب حسن، سعید بن جبیر، علی بن حسین، شریح، اور جابر بن زید سے بھی یہی منقول ہے کئی فقہاء تابعین اور شافعی کا بھی یہی قول ہے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ منقول ہے کہ اگر عورت یا قبیلے کا تعین کرکے کہے (یعنی فلاں قبیلہ کی عورت سے نکاح کرو تو طلاق ہے) تو طلاق واقع ہو جاتی ہے یعنی جیسے ہی وہ نکاح کرے گا طلاق ہو جائے گی۔ ابراہیم نخعی شعبی، اور دیگر اہل علم سے مروی ہے کہ کوئی وقت مقرر کرے گا تو طلاق ہو جائے گی سفیان، اور مالک بن انس کا یہی قول ہے کہ جب کسی کہ جب کسی خاص عورت کا نام لے کر یا کوئی وقت مقرر کرکے کہے اگر میں فلاں شہر کی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے ان صورتوں میں نکاح کرتے ہی طلاق واقع ہو جائے گی ابن مبارک اس مسئلے میں شدت اختیار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ عورت حرام بھی نہیں ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ ابن مبارک سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی شخص نکاح نہ کرنے پر طلاق کی قسم کھالے یعنی کہتے کہ اگر میں نے نکاح کیا تو میری بیوی کو طلاق ہے پھر اسے نکاح کا خیال آیا تو کیا اس کے لئے ان فقہاء کے قول پر عمل جائز ہے جو اس کی اجازت دیتے ہیں ابن مبارک نے فرمایا اگر وہ اس مسئلے میں مبتلا ہونے سے پہلے ان کے قول کو صحیح سمجھتا تھا تو اب بھی اس پر عمل کرسکتا ہے لیکن اگر پہلے اجازت نہ دینے والے فقہاء کے قول کو ترجیح دیتا تھا تو اب بھی اجازت دینے والے فقہاء کے قول پر عمل جائز نہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ اگر اس نے نکاح کرلیا تو میں اس کو بیوی چھوڑنے کا حکم نہیں دیتا۔ اسحاق فرماتے ہیں کہ میں کسی متعین قبیلے، شہر، یا عورت کے متعلق حضرت ابن مسعود کی حدیث کی بناء پر اجازت دیتا ہوں اور اگر وہ نکاح کرلے تو میں نہیں کہتا کہ عورت اس پر حرام ہے غیر منسوبہ عورت کے بارے میں بھی اسحاق نے وسعت دی ہے۔

Amr ibn Shu’ayb reported from his father, from his grandfather that Allah’s Messenger (SAW) said, “The son of Aadam may make no vow about what he does not possess, and he need not set free what he does not possess, and he may not divorce what he does not possess.

[Ahmed 7009, Abu Dawud 2190, Ibn e Majah 2047]

——————————————————————————–

یہ حدیث شیئر کریں