جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1091

تفسیر سورت بنی اسرائیل

راوی: احمد بن منیع , ہشیم , ابوبشر , سعید بن جبیر , ابن عباس

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِکَ سَبِيلًا قَالَ نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَفٍ بِمَکَّةَ فَکَانَ إِذَا صَلَّی بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ فَکَانَ الْمُشْرِکُونَ إِذَا سَمِعُوهُ شَتَمُوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَائَ بِهِ فَقَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ أَيْ بِقِرَائَتِکَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِکُونَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا عَنْ أَصْحَابِکَ وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِکَ سَبِيلًا قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

احمد بن منیع، ہشیم، ابوبشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِکَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ اس وقت نازل ہوئی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپ کر دعوت دیتے تھے اور صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھتے تو قرآن بلند آواز سے پڑھتے۔ چنانچہ مشرکین جب قرآن سنتے تو اسے اور اس کے لانے والے کو گالیاں دینے لگتے ہیں لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حکم دیا کہ اتنی بلند آواز مت پڑھئے کہ مشرکین سنیں اور اسے گالیاں دیں اور اتنی آہستہ بھی پڑھئے کہ مشرکین سنیں اور اسے گالیاں دیں اور اتنی آہستہ بھی نہ پڑھئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سن نہ سکیں بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیجئے (یعنی درمیانی آواز سے پڑھئے) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Sayyidina Ibn Abbas said about the words of Allah: "And speak not your prayer aloud, not speak it low, but seek a middle course between." (17:110)

That it was revealed to Allah’s Messenger (SAW) when he was hiding in Makkah and raised his voice when he offered salah with his sahabah while reciting the Quran. When the idolaters heard him, they abused the Qur’an and him who brought it, Allah said to His Prophet: "And do not raise your voice in your salah, that is in your recital." Lest the idolaters hear it and revile the Qur’an, "And do not speak low", with your sahabah, but "Seek a middle course between."

[Ahmed 1853, Bukhari 4722, Muslim 446, Nisai 1007]

یہ حدیث شیئر کریں