سورت حج کی تفسیر
راوی: محمد بن بشار , یحیی بن سعید , ہشام بن عبداللہ , قتادة , حسن , عمران بن حصین
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَتَفَاوَتَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ فِي السَّيْرِ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ بِهَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْئٌ عَظِيمٌ إِلَی قَوْلِهِ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِکَ أَصْحَابُهُ حَثُّوا الْمَطِيَّ وَعَرَفُوا أَنَّهُ عِنْدَ قَوْلٍ يَقُولُهُ فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ ذَلِکَ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ذَاکَ يَوْمٌ يُنَادِي اللَّهُ فِيهِ آدَمَ فَيُنَادِيهِ رَبُّهُ فَيَقُولُ يَا آدَمُ ابْعَثْ بَعْثَ النَّارِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ وَمَا بَعْثُ النَّارِ فَيَقُولُ مِنْ کُلِّ أَلْفٍ تِسْعُ مِائَةٍ وَتِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ فِي النَّارِ وَوَاحِدٌ فِي الْجَنَّةِ فَيَئِسَ الْقَوْمُ حَتَّی مَا أَبَدَوْا بِضَاحِکَةٍ فَلَمَّا رَأَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي بِأَصْحَابِهِ قَالَ اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّکُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا کَانَتَا مَعَ شَيْئٍ إِلَّا کَثَّرَتَاهُ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَمَنْ مَاتَ مِنْ بَنِي آدَمَ وَبَنِي إِبْلِيسَ قَالَ فَسُرِّيَ عَنْ الْقَوْمِ بَعْضُ الَّذِي يَجِدُونَ فَقَالَ اعْمَلُوا وَأَبْشِرُوا فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ فِي النَّاسِ إِلَّا کَالشَّامَةِ فِي جَنْبِ الْبَعِيرِ أَوْ کَالرَّقْمَةِ فِي ذِرَاعِ الدَّابَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
محمد بن بشار، یحیی بن سعید، ہشام بن عبد اللہ، قتادہ، حسن، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آگے پیچھے ہوگئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے یہ دو آیتیں پڑھیں (يٰ اَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ ) 22۔ الحج : 1) جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات کہنے والے ہیں لہذا اپنی سواریوں کو دوڑا کر (آگے آگئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکاریں گے وہ جواب دیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے آدم علیہ السلام جہنم کے لئے لشکر تیار کرو۔ وہ کہیں گے اے اللہ ! وہ کونسا لشکر ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ہر ہزار آدمیوں میں سے نوسونناوے جہنمی اور ایک جنتی ہے۔ اس بات سے لوگ مایوس ہوگئے۔ یہاں تک کہ کوئی مسکرا بھی نہیں سکا۔ چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو غمگین دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمل کرو اور بشارت دو۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے تمہارے ساتھ دو مخلوقیں ایسی ہوں گی جو جس کسی کے ساتھ مل جائیں ان کی تعداد زیادہ کر دیں گی۔ ایک یاجوج ماجوج اور دوسری جو شخص نبی آدم اور اولاد، ابلیس سے مر گئے۔ راوی فرماتے ہیں یہ سن کر صحابہ کرام کی پریشانی ختم ہوگئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمل کرو اور بشارت دو کیوں کہ تمہاری دوسری امتوں کے مقابلے میں تعداد صرف اتنی ہے جیسے کسی اونٹ کے پہلو میں تل کسی جانور کے ہاتھ کے اندر کا گوشت۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Imran ibn Husayn (RA) narrated: We were with the Prophet (SAW) on a journey. The sahabah separated from each other (outpacing or lagging behind). Allah’s Messenger (SAW) raised his voice with these two verses: "O Mankind! Fear you Lord. Surely the earthquake of the Hour (of Resurrection) is a mighty thing. On the day when you behold it, every suckling woman shall neglect the babe she suckled, and every pregnant woman shall lay down her burden, and you shall see mankind as drunk, yet they shall not be drunk, but the chastisement of Allah shall be severe." (22:1-2)When the sahabah heard him, they knew that he was to say something and they directed their mounts towards him. He asked them if they knew what day that would be. They said that only Allah and His Messenger knew that. He said, “That’s a day when Allah will call Aadam.” His Lord will summon him, saying, “0Aadam! Send forth the group of Hell.” He will ask, “O Lord! And what is the group of Hell?” So, He will say, “Out of every thousand, nine hundred and ninety-nine will go to Hell and one to Paradise.” That brought grief to the people so that none could smile. When Allah’s Messenger (SAW) observed the state of his sahabah, he said, “Perform deeds and give good tidings, for, by Him in Whose hand is the soul of Muhammad, you will be (in relation) with two kinds of creatures who will multiply whatever they are with. They are Ya’juj and Ma’juj, and who died among the children of Aadam and the progeny of Iblis.” So, something of what was found over the people was mitigated from them. he said, “Perform deeds and convey glad tidings, for, by Him Who has Muhammad’s soul in His Hand! You are not as many compared to other ummah but as a mole on the side of camel, or an overgrown flesh on the inside of an animal's foreleg.’
[Ahmed 19922, Bukhari 3348, Muslim 222]
——————————————————————————–
