جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1142

سورئہ روم کی تفسیر

راوی: محمد بن اسماعیل , اسماعیل بن ابی اویس , ابن ابی زناد , ابوزناد , عروة بن زبیر , نیار بن مکرم اسلمی

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ نِيَارِ بْنِ مُکْرَمٍ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَی الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ فَکَانَتْ فَارِسُ يَوْمَ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قَاهِرِينَ لِلرُّومِ وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ ظُهُورَ الرُّومِ عَلَيْهِمْ لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ أَهْلُ کِتَابٍ وَفِي ذَلِکَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَی وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَائُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ وَکَانَتْ قُرَيْشٌ تُحِبُّ ظُهُورَ فَارِسَ لِأَنَّهُمْ وَإِيَّاهُمْ لَيْسُوا بِأَهْلِ کِتَابٍ وَلَا إِيمَانٍ بِبَعْثٍ فَلَمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی هَذِهِ الْآيَةَ خَرَجَ أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَصِيحُ فِي نَوَاحِي مَکَّةَ الم غُلِبَتْ الرُّومُ فِي أَدْنَی الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ فِي بِضْعِ سِنِينَ قَالَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ لِأَبِي بَکْرٍ فَذَلِکَ بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ زَعَمَ صَاحِبُکَ أَنَّ الرُّومَ سَتَغْلِبُ فَارِسَ فِي بِضْعِ سِنِينَ أَفَلَا نُرَاهِنُکَ عَلَی ذَلِکَ قَالَ بَلَی وَذَلِکَ قَبْلَ تَحْرِيمِ الرِّهَانِ فَارْتَهَنَ أَبُو بَکْرٍ وَالْمُشْرِکُونَ وَتَوَاضَعُوا الرِّهَانَ وَقَالُوا لِأَبِي بَکْرٍ کَمْ تَجْعَلُ الْبِضْعُ ثَلَاثُ سِنِينَ إِلَی تِسْعِ سِنِينَ فَسَمِّ بَيْنَنَا وَبَيْنَکَ وَسَطًا تَنْتَهِي إِلَيْهِ قَالَ فَسَمَّوْا بَيْنَهُمْ سِتَّ سِنِينَ قَالَ فَمَضَتْ السِّتُّ سِنِينَ قَبْلَ أَنْ يَظْهَرُوا فَأَخَذَ الْمُشْرِکُونَ رَهْنَ أَبِي بَکْرٍ فَلَمَّا دَخَلَتْ السَّنَةُ السَّابِعَةُ ظَهَرَتْ الرُّومُ عَلَی فَارِسَ فَعَابَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی أَبِي بَکْرٍ تَسْمِيَةَ سِتِّ سِنِينَ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَی قَالَ فِي بِضْعِ سِنِينَ وَأَسْلَمَ عِنْدَ ذَلِکَ نَاسٌ کَثِيرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ نِيَارِ بْنِ مُکْرَمٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الزِّنَادِ

محمد بن اسماعیل، اسماعیل بن ابی اویس، ابن ابی زناد، ابوزناد، عروہ بن زبیر، حضرت نیار بن مکرم اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جب (ال مّ غُلِبَتِ الرُّوْمُ Ą فِيْ اَدْنَى الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ Ǽ فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ ) 30۔ الروم : 1) نازل ہوئی تو اہل فارس، اہل روم پر غالب تھے اور مسلمان اہل فارس کو مغلوب دیکھنے کے خواہش مند تھے اس لئے کہ رومی اہل کتاب تھے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( وَيَوْمَى ِذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ Ć بِنَصْرِ اللّٰهِ يَنْصُرُ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ ) 30۔ الروم : 4-5) (اور اس دن خوش ہونگے مسلمان اللہ کی مدد ہر وہ جسکی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ ہے زبر دست رحم والا۔) جبکہ قریش کی چاہت تھی کہ اہل فارس ہی غالب رہیں کیونکہ وہ قریش دونوں نہ اہل کتاب تھے اور نہ کسی نبوت پر ایمان رکھنے والے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ آیات زور زور سے پڑھتے ہوئے گھومنے لگے۔ مشرکین میں سے کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان شرط ہے۔ تمہارے دوست محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کہنا ہے کہ چند سال میں رومی اہل فارس پر غالب آجائیں گے کیا ہم تم سے اس پر شرط نہ لگائیں۔ اور یہ شرط حرام ہونے سے پہلے کا قصہ ہے۔ اس طرح ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مشرکین کے درمیان شرط لگ گئی اور دونوں نے اپنا اپنا شرط کا مال کسی جگہ رکھوا دیا۔ پھر انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ بضع تین سے نو تک کے عدد کو کہتے ہیں لہذا ایک درمیانی مدت مقرر کرلو۔ چنانچہ چھ سال کی مدت میں روم غالب نہ آسکے۔ اس پر مشرکین نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ نے چھ سال کی مدت کیوں طے کی تھی۔ انہوں نے فرمایا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے بضع سنین فرمایا راوی کہتے ہیں کہ اس موقع پر بہت لوگ مسلمان ہوئے۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف عبدالرحمن بن ابی زناد کی روایت سے جانتے ہیں۔

Sayyidina Niyar ibn Mukram al-Aslami (RA) narrated: When the verses "Alif Laam Mim. The Romans have been defeated in the land close by, and after (this) defeat of theirs, they will soon be victorious, within a few years. To Allah belongs the command before and after and on that day the Believers will rejoice, in Allah's help. (30: 1-5)

were revealed, the Persians were the conquerors of Rome. The Muslims loved to see that Rome overran the Persians because they (the Romans) were People of the Book like them (the Muslim). This is what Allah’s words concern:

"And on that day the Believers will rejoice in Allah’s help. He helps whom He will. And He is the Mighty, the Merciful.” (30: 4-5)

But the Quraysh loved the upper hand of Persia because they and the Quraysh were not People of he Book and did not believe in prophethood. When these verses were revealed, Abu Bakr Siddiq is recited (them) aloud in the surroundings of Makkah:

"Alif Laam Mim. The Romans have been defeated in the land close by, and after (this) defeat of theirs, they will soon be victorious, within a few years. To Allah belongs the command before and after and on that day the Believers will rejoice, in Allah's help. (30: 1-5)

Some of the Quraysh said to him, “Let that be (a deciding factor) between us and you. Your friend imagines that Rome will conquer Persia in a few years. Shall we not wage a bet with you over that?” He said, “Yes!” and that was before gambling was prohibited. Thus, Abu Bakr and the idolaters waged the bet and placed the wager somewhere. They asked Abu Bakr. “How much do you regard the (bid’) to be between three and nine years? So name a middle period for us and you at which it should terminate.” So they named six years between them. The six years were over before the victory (of the Romans). So the idolators took hold of Abu Bakr’s is wager. When the seventh year began, Rome defeated Persia. So the Muslims asked Abu Bakr (RA) why he had determined six years. He said, “Because Allah the Exalted said: “in a few years.” Many people embraced Islam when that happened.

——————————————————————————–

یہ حدیث شیئر کریں