جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1202

سورئہ دخان کی تفسیر

راوی: محمود بن غیلان , عبدالملک بن ابراہیم جدی , شعبہ , اعمش ومنصور , ابوالضحی , مسروق

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجُدِّيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ وَمَنْصُورٍ سَمِعَا أَبَا الضُّحَی يُحَدِّثُ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ جَائَ رَجُلٌ إِلَی عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ إِنَّ قَاصًّا يَقُصُّ يَقُولُ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ الدُّخَانُ فَيَأْخُذُ بِمَسَامِعِ الْکُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ کَهَيْئَةِ الزُّکَامِ قَالَ فَغَضِبَ وَکَانَ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ إِذَا سُئِلَ أَحَدُکُمْ عَمَّا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ بِهِ قَالَ مَنْصُورٌ فَلْيُخْبِرْ بِهِ وَإِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ مِنْ عِلْمِ الرَّجُلِ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَی قَالَ لِنَبِيِّهِ قُلْ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِينَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَی قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ قَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ کَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ فَأَحْصَتْ کُلَّ شَيْئٍ حَتَّی أَکَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَقَالَ أَحَدُهُمَا الْعِظَامَ قَالَ وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ کَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ إِنَّ قَوْمَکَ قَدْ هَلَکُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ قَالَ فَهَذَا لِقَوْلِهِ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَی النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ مَنْصُورٌ هَذَا لِقَوْلِهِ رَبَّنَا اکْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ فَهَلْ يُکْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ قَدْ مَضَی الْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَالدُّخَانُ و قَالَ أَحَدُهُمْ الْقَمَرُ وَقَالَ الْآخَرُ الرُّومُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَاللِّزَامُ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

محمود بن غیلان، عبدالملک بن ابراہیم جدی، شعبہ، اعمش ومنصور، ابوالضحی، مسروق سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص عبداللہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ایک واعظ بیان کر رہا تھا کہ قیامت کے قریب زمین میں سے ایسا دھواں نکلے کہ اس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے اور مومنوں کو زکام کا سا ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں کہ اس پر عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصے ہوگئے اور اٹھ کر بیٹھ گئے (پہلے تکیہ لگائے بیٹھے تھے) اور فرمایا اگر کسی سے ایسی بات پوچھی جائے جس کا اس کے پاس علم ہو تو بیان کرے یا فرمایا بتا دے اور اگر نہ جانتا ہو تو کہہ دے کہ اللہ جانتا ہے۔ یہ بھی انسان کا علم ہے کہ جو چیز نہیں جانتا اس کے بارے میں کہے کہ اللہ اعلم، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ کہہ دیجئے میں تم لوگوں سے اجرت نہیں مانگا اور میں اپنے پاس سے بات بنانے والا نہیں ہوں۔ اس دھوئیں کی حقیقت یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ قریشی نافرمانی پر تل چکے ہیں تو دعا کی یا اللہ پر یوسف علیہ السلام کے زمانے کی طرح سات سال کا قحط نازل فرما۔ چنانچہ قحط آیا اور سب چیزیں ختم ہوگئی، یہاں تک کہ لوگ کھالیں اور مردار کھانے لے۔ اعمش یا منصور کہتے ہیں کہ ہڈیاں بھی کھانے لگے۔ حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ پھر زمین میں سے ایک دھواں نکلنے لگا، راوی کہتے ہیں کہ پھر ابوسفیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی کہ آپ کی قوم ہلاک ہوگئی ہے (فَارْتَ قِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَا ءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ ) 44۔ الدخان : 10) (سو اس دن کا انتظار کیجئے کہ آسمان دھواں ظاہر لائے، جو لوگوں کو ڈھانپ لے۔ یہی دردناک عذاب ہے۔) منصور کہتے ہیں یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ لوگ دعا کریں گے ربنا اکشف الآیۃ (اے ہمارے رب ! ہم سے یہ عذاب دور کر دے بے شک ہم ایمان لانے والے ہیں۔) کیوں کہ قیامت کا عذاب تو دور نہیں کیا جائے گا۔ (یعنی یہ آیت بھی عبداللہ کے قول کی تائید کرتی ہے) عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بطشہ لزام اور دخان کے عذاب گذرچکے ہیں۔ اعمش یا منصور کہتے ہیں چاند کا پھٹنا بھی گذرگیا۔ اور پھر ان دونوں میں سے ایک یہ بھی کہتے ہیں کہ روم غالب ہونا بھی گذر گیا، امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لزام سے مراد جنگ بدر کے موقع پر جو لوگ قتل ہوئے ہیں وہ ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

Masruq reported that a man came to Sayyidina Abdullah (RA) and said that a preacher preached that a smoke would emerge from the earth whereby the hearing of the disbelievers would be impaired and the Believers would get something like common cold. Abdullah (RA) was enraged and he sat up straight though he had been reclining (before being told of that). Then he said, "If one of you is asked of something of which he has knowledge then he may answer"-or he said, inform. "But, if he is asked something of whch he has no knowledge then he must say Allah knows best." Then he said that Allah has said to His Prophet:

"Say, 'I ask of you no reward for this, nor am I of the impostors.'"

——————————————————————————–

(38: 86)

When Allah's Messenger (SAW) observed that the Quraysh disobeyed him, he prayed, "O Allah! Help me over them with the seven like the seven of Yusuf." (seven years of famine). So, a year came upon them when everything was exhausted and they were driven to eat hides and carriory.-And one of the narrators saide-even bones. The like of smoke emerged from the earth. Abu Sufyan came to the Prophet (SAW) and said, "Your people are perishing. Pray to Allah for them." This was for his people:

"…the Day when the heaven shall bring a manifest smoke enveloping the people. This will be a painful chastisement." (44: 10-11)

Mansur (a narrator) said that this is for his people (who will pray):

"Our Lord remove from us the chastisement, surely we are believers. (44 : 12) (This cannot be the punishment of the Hereafter). Obviously, the Punishment of the Hereafter is not removed. (Abdullah said:) "The batshah, the lizam and the dukhan have passed." And one of the narrators (Mansur or A'mash) said, "The (splitting of the) moon" and the other said, (The liberation of) Rome have also passed.

[Ahmed 4206, Bukhari 4693, Muslim 2798]

Lizam means (the people who were killed during) the Battle of Badr.

——————————————————————————–

یہ حدیث شیئر کریں