سورت منافقون کی تفسیر
راوی: عبد بن حمید , عبیداللہ بن موسی , اسرائیل , سدی , ابوسعید ازدی , زید بن ارقم
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَانَ مَعَنَا أُنَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ فَکُنَّا نَبْتَدِرُ الْمَائَ وَکَانَ الْأَعْرَابُ يَسْبِقُونَّا إِلَيْهِ فَسَبَقَ أَعْرَابِيٌّ أَصْحَابَهُ فَيَسْبَقُ الْأَعْرَابِيُّ فَيَمْلَأُ الْحَوْضَ وَيَجْعَلُ حَوْلَهُ حِجَارَةً وَيَجْعَلُ النِّطْعَ عَلَيْهِ حَتَّی يَجِيئَ أَصْحَابُهُ قَالَ فَأَتَی رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَعْرَابِيًّا فَأَرْخَی زِمَامَ نَاقَتِهِ لِتَشْرَبَ فَأَبَی أَنْ يَدَعَهُ فَانْتَزَعَ قِبَاضَ الْمَائِ فَرَفَعَ الْأَعْرَابِيُّ خَشَبَتَهُ فَضَرَبَ بِهَا رَأْسَ الْأَنْصَارِيِّ فَشَجَّهُ فَأَتَی عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ رَأْسَ الْمُنَافِقِينَ فَأَخْبَرَهُ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِهِ فَغَضِبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ثُمَّ قَالَ لَا تُنْفِقُوا عَلَی مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّی يَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِهِ يَعْنِي الْأَعْرَابَ وَکَانُوا يَحْضُرُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الطَّعَامِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا انْفَضُّوا مِنْ عِنْدِ مُحَمَّدٍ فَأْتُوا مُحَمَّدًا بِالطَّعَامِ فَلْيَأْکُلْ هُوَ وَمَنْ عِنْدَهُ ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ قَالَ زَيْدٌ وَأَنَا رِدْفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ فَأَخْبَرْتُ عَمِّي فَانْطَلَقَ فَأَخْبَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَلَفَ وَجَحَدَ قَالَ فَصَدَّقَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَذَّبَنِي قَالَ فَجَائَ عَمِّي إِلَيَّ فَقَالَ مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ مَقَتَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَکَذَّبَکَ وَالْمُسْلِمُونَ قَالَ فَوَقَعَ عَلَيَّ مِنْ الْهَمِّ مَا لَمْ يَقَعْ عَلَی أَحَدٍ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ قَدْ خَفَقْتُ بِرَأْسِي مِنْ الْهَمِّ إِذْ أَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَکَ أُذُنِي وَضَحِکَ فِي وَجْهِي فَمَا کَانَ يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الْخُلْدَ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِنَّ أَبَا بَکْرٍ لَحِقَنِي فَقَالَ مَا قَالَ لَکَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ مَا قَالَ لِي شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُ عَرَکَ أُذُنِي وَضَحِکَ فِي وَجْهِي فَقَالَ أَبْشِرْ ثُمَّ لَحِقَنِي عُمَرُ فَقُلْتُ لَهُ مِثْلَ قَوْلِي لِأَبِي بَکْرٍ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُورَةَ الْمُنَافِقِينَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
عبد بن حمید، عبیداللہ بن موسی، اسرائیل، سدی، ابوسعید ازدی، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ کے لئے گئے ہمارے ساتھ کچھ دیہاتی بھی تھے۔ ہم لوگ تیزی سے پانی کی طرف دوڑے۔ دیہاتی ہم سے پہلے وہاں پہنچ گئے اور ایک دیہاتی نے پہنچ کر حوض بھرا اور اس کے گرد پتھر لگا کر اس پر چمڑا ڈال دیا۔ (تاکہ کوئی اور پانی نہ لے سکے) صرف اس کے ساتھی ہی وہاں آئیں۔ ایک انصاری اس کے پاس گیا اور اپنی اونٹنی کی مہار ڈھیلی کر دی تاکہ وہ پانی پی لے۔ لیکن دیہاتی نے انکار کر دیا۔ اس پر انصاری نے پانی کی روک ہٹا دی (تاکہ پانی بہہ جائے) اس دیہاتی نے ایک لکڑی اٹھائی اور انصاری کے سر پر مار دی جس سے اس کا سر پھٹ گیا اور وہ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کے پاس آیا۔ یہ قصہ سن کر عبداللہ بن ابی نے کہا کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ان کے پاس سے چلے جائیں۔ یعنی دیہاتی لوگ۔ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھانے کے وقت حاضر ہوا کرتے تھے۔ عبداللہ بن ابی کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کھانا اس وقت لے کر جایا کرو جب یہ لوگ جا چکیں جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو وہاں کے عزت دار لوگوں کو چاہیے کہ ذلیل لوگوں (یعنی اعراب) کو وہاں سے نکال دیں حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ میں نے عبداللہ کی بات سنی اور پر اپنے چچا کو بتا دی۔ چچا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتا دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو بلوایا تو اس نے آ کر قسم کھائی اور اس بات کا انکار کر دیا کہ اس نے یہ نہیں کہا۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے سچا سمجھ کر مجھے جھٹلا دیا۔ پھر میرے چچا میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم یہی چاہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے ناراض ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمان تمہیں جھٹلا دیں۔ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ مجھے اس کا اتنا دکھ ہوا کہ کسی اور کو نہ ہوا ہوگا۔ پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سر جھکائے چل رہا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرا کان کھینچ کہ میرے سامنے ہنسنے لگے۔ مجھے اگر دنیا میں ہمیشہ رہنے کی خوشخبری بھی ملتی تو بھی میں اتنا خوش نہ ہوتا جتنا اس وقت ہوا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے ملے اور پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم سے کیا کہا؟ میں نے کہا کچھ فرمایا تو نہیں بس میرا کان ملا اور ہنسنے لگے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تمہیں بشارت ہو۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے ملے۔ انہوں نے بھی اسی طرح پوچھا اور میں نے بھی وہی جواب دیا۔ چنانچہ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورت منافقون پڑھی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Sayyidina Zayd ibn Arqam (RA) narrated: We participated with the Prophet (SAW) in a battle. There were some villagers with us. We rushed towards water but the villagers overtook us there. One of them was the first. He filled the pond, put stones around it and covered it with a piece of leather to prevent all but his co-villagers (from using the water). An Ansar came there and released the reins of his she-camel that she might drink water, but this man did not allow him (the facility). The Ansar removed the stone (to allow water to flow out) and the villager picked up a stick and struck the Ansar on his head causing a wound. He went to Abdullah ibn Ubayy, the chief of the hypocrites, and informed him. He was with his friends and he went into a rage and said, "Do not spend anything upon those who are with the Messenger of Allah (SAW) until they disperse -meaning, the villagers who used to come to Allah's Messenger (SAW) at the time of the meals. He meant that they should take food to the Prophet (SAW) only when the villagers were gone so that only the Prophet (SAW) and those who were with him might eat it. He also said to his friends, "When we return to Madinah, the mighty will certainly drive out the humble from there." (Zayd said) : I was the co-rider with Allah's Messenger (SAW) and I heard him. I informed my uncle and he went and conveyed the news to Allah's Messenger (SAW) who sent for him and he swore that he had not said any such thing. Allah's Messenger (SAW) upheld his word and belied me. My uncle came to me and said that I wanted nothing but the Prophet's (SAW) anger, and that he and the Muslims should belie me. A grief overcame-me as had not overcome anyone. While I was walking with Allah's Messenger (SAW) with my head lowered with sorrow, he drew near me and pulling my ears laughed. This pleased me so much that even tidings of perpetual life in this world would not have pleased me as much. Abu Bakr came to me and asked, "What did Allah's Messenger (SAW) say to you?" I told him that he said nothing except that he pulled my ears and laughed before me. He said, "That's good news for you." Then Umar came and I said to him like what I had told Abu Bakr. When it was morning, Allah's Messenger (SAW) recited surah al-Munafiqun.
