جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1265

سورت منافقون کی تفسیر

راوی: عبد بن حمید , جعفر بن عون , ابوجناب کلبی , ضحاک بن مزاحم , ابن عباس

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ أَخْبَرَنَا أَبُو جَنَابٍ الْکَلْبِيُّ عَنْ الضَّحَّاکِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَنْ کَانَ لَهُ مَالٌ يُبَلِّغُهُ حَجَّ بَيْتِ رَبِّهِ أَوْ تَجِبُ عَلَيْهِ فِيهِ الزَّکَاةُ فَلَمْ يَفْعَلْ يَسْأَلْ الرَّجْعَةَ عِنْدَ الْمَوْتِ فَقَالَ رَجُلٌ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ اتَّقِ اللَّهَ إِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجْعَةَ الْکُفَّارُ قَالَ سَأَتْلُو عَلَيْکَ بِذَلِکَ قُرْآنًا يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُولَئِکَ هُمْ الْخَاسِرُونَ وَأَنْفِقُوا مِنْ مَا رَزَقْنَاکُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِلَی قَوْلِهِ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ قَالَ فَمَا يُوجِبُ الزَّکَاةَ قَالَ إِذَا بَلَغَ الْمَالُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَصَاعِدًا قَالَ فَمَا يُوجِبُ الْحَجَّ قَالَ الزَّادُ وَالْبَعِيرُ

عبد بن حمید، جعفر بن عون، ابوجناب کلبی، ضحاک بن مزاحم، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جس شخص کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ حج بیت اللہ کے لئے جا سکے یا اس مال پر زکوة واجب ہوتی ہو لیکن وہ نہ حج کرے اور نہ زکوة دے تو موت کے وقت اس کی تمنا ہوگی کہ کاش میں واپس دنیا میں چلا جاؤں۔ ایک شخص نے عرض کیا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اللہ سے ڈرو (دنیا میں) لوٹنے کی تمنا تو کفار کریں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا میں اس کے متعلق تمہارے سامنے قرآن مجید پڑھتا ہوں پھر آیت پڑھی (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰ ى ِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ Ḍ وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) 63۔ المنافقون : 9) (اے ایمان والو غافل نہ کر دیں تم کو تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے اور جو کوئی یہ کام کرے تو وہی لوگ ہیں خسارے میں اور خرچ کرو کچھ ہمارا دیا ہوا، اس سے پہلے کہ آپہنچے تم میں کسی کو موت۔ تب کہے اے رب کیوں نہ ڈھیل دی تو نے مجھ کو ایک تھوڑی سی مدت کہ میں خیرات کرتا اور ہو جاتا نیک لوگوں میں اور ہرگز نہ ڈھیل دے گا اللہ کسی جی کو۔ جب آپہنچا اس کا وعدہ اور اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو ) اس شخص نے پوچھا کہ زکوة کتنے مال پر واجب ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر دو سو درہم یا اس سے زیادہ ہو۔ پھر اس نے پوچھا کہ حج کب فرض ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا زادراہ اور سواری ہونے پر۔

Sayyidina Ibn Abbas (RA) said that if anyone possesses enough wealth to enable him to go and perform Hajj at the House of his Lord, or to make it obligatory on him to pay zakah but does not do that, at the then time of death he will plead for a return (to earthly life). A man exclaimed, "O Ibn Abbas! Fear Allah. Only the disbelievers will long for a return." So, he said, "I will recite to you from the Qur'an concerning that (what I say)." And he recited: "O ye who believe! Let not your riches or your children divert you from the remembrance of Allah. If any act thus, the loss is their own. And spend something (in charity) out of the substance which We have bestowed on you, before Death should come to any of you and he should say, "O my Lord! why didst Thou not give me respite for a little while? I should then have given (largely) in charity, and I should have been one of the doers of good". But to no soul will Allah grant respite when the time appointed (for it) has come; and Allah is well acquainted with (all) that ye do." (63: 9 -11)The man asked. "What makes zakah obligatory?" He said, "When the property is two hundred (dirhams) or more." "And", he asked, "What makes Hajj obligatory?" He said, "Provision for the journey and (availability of) the conveyance."

یہ حدیث شیئر کریں