تفسیر سورت الجن
راوی: ابن ابی عمر , سفیان , مجالد , شعبی , جابر
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ نَاسٌ مِنْ الْيَهُودِ لِأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّکُمْ کَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ قَالُوا لَا نَدْرِي حَتَّی نَسْأَلَ نَبِيَّنَا فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ غُلِبَ أَصْحَابُکَ الْيَوْمَ قَالَ وَبِمَا غُلِبُوا قَالَ سَأَلَهُمْ يَهُودُ هَلْ يَعْلَمُ نَبِيُّکُمْ کَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ قَالَ فَمَا قَالُوا قَالَ قَالُوا لَا نَدْرِي حَتَّی نَسْأَلَ نَبِيَّنَا قَالَ أَفَغُلِبَ قَوْمٌ سُئِلُوا عَمَّا لَا يَعْلَمُونَ فَقَالُوا لَا نَعْلَمُ حَتَّی نَسْأَلَ نَبِيَّنَا لَکِنَّهُمْ قَدْ سَأَلُوا نَبِيَّهُمْ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً عَلَيَّ بِأَعْدَائِ اللَّهِ إِنِّي سَائِلُهُمْ عَنْ تُرْبَةِ الْجَنَّةِ وَهِيَ الدَّرْمَکُ فَلَمَّا جَائُوا قَالُوا يَا أَبَا الْقَاسِمِ کَمْ عَدَدُ خَزَنَةِ جَهَنَّمَ قَالَ هَکَذَا وَهَکَذَا فِي مَرَّةٍ عَشَرَةٌ وَفِي مَرَّةٍ تِسْعَةٌ قَالُوا نَعَمْ قَالَ لَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا تُرْبَةُ الْجَنَّةِ قَالَ فَسَکَتُوا هُنَيْهَةً ثُمَّ قَالُوا خْبْزَةٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخُبْزُ مِنْ الدَّرْمَکِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ
ابن ابی عمر، سفیان، مجالد، شعبی، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ چند یہودیوں نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے نبی کو معلوم ہے کہ جہنم کے کتنے خزانچی ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہمیں علم نہیں لیکن ہم پوچھیں گے۔ پھر ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم آج ہار گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کس طرح؟ کہنے لگا کہ یہودیوں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارا نبی جاتا ہے کہ جہنم کے کتنے خزانچی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کیا جواب دیا؟ کہنے لگا کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھے بغیر نہیں بتا سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ قوم ہار گئی جس سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا گیا جو وہ نہیں جاتے؟ (یعنی اس میں تو ہار نے والی کوئی بات نہیں) بلکہ یہودیوں نے تو اپنے نبی سے کہا تھا کہ ہمیں اعلانیہ اللہ کا دیدار کرائے۔ اللہ کے ان دشمنوں کو میرے پاس لاؤ۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جنت کی مٹی کس چیز کی ہے؟ اور وہ میدہ ہے۔ پھر جب وہ لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھنے لگے کہ جہنم کے کتنے خزانچی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھوں سے دو مرتبہ اشارہ کیا۔ ایک مرتبہ دس انگلیوں سے اور ایک مرتبہ نو انگلیوں سے (یعنی) یہودی کہنے لگے ہاں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ جنت کی مٹی کس چیز کی ہے؟ وہ چند لمحے چپ رہے اور پھر کہنے لگے اے اقاسم روٹی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میدے کی روٹی ہے۔ اس حدیث کو ہم صرف مجالد کی روایت سے اس سند سے جانتے ہیں۔
Sayyidina Jabir reported that some Jews asked a few sahabah whether their Prophet (SAW) knew how many keepers of Hell were there. The sahabah said, “We do not know but we shall ask him.” So, a man went to the Prophet and asked, “O Muhammad, your sahabah were defeated today.” He asked, “How were they defeated?” The man said, “The Jews asked them whether their Prophet knew the number of keepers of Hell.” He asked, “What did they say?” The man said that they said, “We do not know till we ask our Prophet." He asked, “Are a people defeated when they are questioned about something they do not know? They only said that they did not know till they asked their Prophet while they (the Jews) had asked their Prophet, show us Allah in public’. Bring these enemies of Allah to me. I will ask them about the dust of paradise. It is fine earth (or flour).” When they came to him, they asked, “O Abul Qasim, how many keepers are there over Hell?” He said through gesture (of his fingers) showing ten once and nine the second time.1 They said, ‘Yes. The Prophet (SAW) asked them, “What is the dust of Paradise?” They kept quiet some time and then asked, “Is it bread, O Abul Qasim?” He said, “Bread of flour.”
——————————————————————————–
