جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1300

سورئہ علق کی تفسیر

راوی: ابوسعید اشج , ابوخالد احمر , داؤد بن ابی ہند , عکرمہ , ابن عباس

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَجَائَ أَبُو جَهْلٍ فَقَالَ أَلَمْ أَنْهَکَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَکَ عَنْ هَذَا أَلَمْ أَنْهَکَ عَنْ هَذَا فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَبَرَهُ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ إِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا بِهَا نَادٍ أَکْثَرُ مِنِّي فَأَنْزَلَ اللَّهُ فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّهِ لَوْ دَعَا نَادِيَهُ لَأَخَذَتْهُ زَبَانِيَةُ اللَّهِ قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

ابوسعید اشج، ابوخالد احمر، داؤد بن ابی ہند، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کا بوجہل آیا اور کہنے لگا کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا (تین مرتبہ یہی جملہ دھرایا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اسے ڈانٹا۔ وہ کہنے لگا تم جانتے ہو کہ مجھ سے زیادہ کسی کے ہم نشین نہیں ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں (فَلْيَدْعُ نَادِيَه 17 سَ نَدْعُ الزَّبَانِيَةَ 18 ) 96۔ العلق : 17۔18) (پس وہ اپنی مجلس والوں کو بلالے ہم بھی موکلین دوزخ کو بلائیں گے۔) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم اگر وہ اپنے دوستوں کو بلا لیتا تو اللہ کے فرشتے اسے پکڑ لیتے۔ یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ اس باب میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی روایت ہے۔

Sayyidina lbn Abbas ” reported that while the Prophet (SAW) was offering salah, Abu Jahl came there and said, “Did I not forbid you this? Did I not forbid you this” When the Prophet finished his salah, he scolded him. Abu Jahi said, Surely you know that there is none who has more sympathisers than ” Allah, the Blessed, the Exalted revealed:Then let him call on his henchmen; We shall call the guards of Hell. (90: 17-18)

[Ahmed 2321]

——————————————————————————–

یہ حدیث شیئر کریں