جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ مناقب کا بیان ۔ حدیث 1890

باب مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں ۔

راوی: محمد بن عبدالاعلی , معتمر بن سلیمان , عبیداللہ بن عمر , نافع , ابن عمر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ مَوْلَاةً لَهُ أَتَتْهُ فَقَالَتْ اشْتَدَّ عَلَيَّ الزَّمَانُ وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَخْرُجَ إِلَی الْعِرَاقِ قَالَ فَهَلَّا إِلَی الشَّامِ أَرْضِ الْمَنْشَرِ اصْبِرِي لَکَاعِ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ صَبَرَ عَلَی شِدَّتِهَا وَلَأْوَائِهَا کُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ وَسُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ

محمد بن عبدالاعلی، معتمر بن سلیمان، عبیداللہ بن عمر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ ان کی لونڈی ان کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھ پر زمانے کی گردش ہے لہذا میں چاہتی ہوں کہ عراق چلی جاوں۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا کہ شام کیوں نہیں چلی جاتی ہو وہ حشرونشر کی زمین ہے۔ پھر اے نادان صبر کیوں نہیں کر لیتی اس لئے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے مدینہ منورہ کی سختی اور بھوک پر صبر کیا میں قیامت کے دن اس کا گواہ یا (فرمایا) شفیع ہوں گا۔ اس باب میں حضرت ابوسعید، سفیان ابی زہیر اور سبیعہ اسلمیہ سے احادیث منقول ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

It is reported about Sayyidina Ibn Umar (RA) that one of his freed woman came to him. She said, “Times are very hard upon me and I intend to go away to Iraq.” He said, “Why do you not go to Syria? It is the land of gathering. Besides, 0 foolish one! Why do you not show patience? I have heard Allah’s Messenger say that if anyone exercises patience over the hardships of Madinah and over hunger then, on the day of resurrection, he will be his-witness or intercessor.”

[Muslim 1377, Ahmed 6449]

یہ حدیث شیئر کریں