جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ حدیث کی علتوں اور راویوں کا بیان ۔ حدیث 1931

حدیث کی علتوں اور راویوں کی جرح اور تعدیل کے بارے میں

راوی: کروخی , قاضی ابوعامر ازدی و شیخ ابوبکر غورجی و ابومظفر دہان , ابومحمد جراحی , ابوالعباس محبوبی , ابوعیسی

قَالَ أَبُو عِيسَی جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْکِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَا خَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ وَقَدْ بَيَّنَّا عِلَّةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا فِي الْکِتَاب ِقَالَ وَمَا ذَکَرْنَا فِي هَذَا الْکِتَابِ مِنْ اخْتِيَارِ الْفُقَهَائِفَمَا کَانَ مِنْهُ مِنْ قَوْلِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ فَأَکْثَرُهُ مَا حَدَّثَنَا بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْکُوفِيُّ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی عَنْ سُفْيَانَ وَمِنْهُ مَا حَدَّثَنِي بِهِ أَبُو الْفَضْلِ مَکْتُومُ بْنُ الْعَبَّاسِ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ عَنْ سُفْيَان َوَمَا کَانَ فِيهِ مِنْ قَوْلِ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ فَأَکْثَرُهُ مَا حَدَّثَنَا بِهِ إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَی الْقَزَّازُ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وَمَا کَانَ فِيهِ مِنْ أَبْوَابِ الصَّوْم ِفَأَخْبَرَنَا بِهِ أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدِينِيُّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وَبَعْضُ کَلَامِ مَالِکٍ مَا أَخْبَرَنَا بِهِ مُوسَی بْنُ حِزَامٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمةَ الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَس ٍوَمَا کَانَ فِيهِ مِنْ قَوْلِ ابْنِ الْمُبَارَکِ فَهُوَ مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْآمُلِيُّ عَنْ أَصْحَابِ ابْنِ الْمُبَارَکِ عَنْهُ وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ أَبِي وَهْبٍ مُحَمَّدِ بْنِ مُزَاحِمٍ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ عَبْدَانَ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِکِ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ حِبَّانَ بْنِ مُوسَی عَنْ ابْنِ الْمُبَارَکِ وَمِنْهُ مَا رُوِيَ عَنْ وَهْبِ بْنِ زَمْعَةَ عَنْ فَضَالَةَ النَّسَوِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ وَلَهُ رِجَالٌ مُسَمَّوْنَ سِوَی مَنْ ذَکَرْنَا عَنْ ابْنِ الْمُبَارَک ِوَمَا کَانَ فِيهِ مِنْ قَوْلِ الشَّافِعِيِّ فَأَکْثَرُهُ مَا أَخْبَرَنَا بِهِ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ عَنْ الشَّافِعِيِّ وَمَا کَانَ مِنْ الْوُضُوئِ وَالصَّلَاةِ فَحَدَّثَنَا بِهِ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَکِّيُّ عَنْ الشَّافِعِيِّ وَمِنْهُ مَا حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو إِسْمَعِيلَ التِّرْمِذِيُّ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَحْيَی الْقُرَشِيُّ الْبُوَيْطِيُّ عَنْ الشَّافِعِيِّ وَذُکِرَ مِنْهُ أَشْيَائُ عَنْ الرَّبِيعِ عَنْ الشَّافِعِيِّ وَقَدْ أَجَازَ لَنَا الرَّبِيعُ ذَلِکَ وَکَتَبَ بِهِ إِلَيْنَاوَمَا کَانَ مِنْ قَوْلِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَإِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ فَهُوَ مَا أَخْبَرَنَا بِهِ إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ عَنْ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ إِلَّا مَا فِي أَبْوَابِ الْحَجِّ وَالدِّيَاتِ وَالْحُدُودِ فَإِنِّي لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ إِسْحَقَ بْنِ مَنْصُورٍ و أَخْبَرَنِي بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی الْأَصَمُّ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ مَنْصُورٍ عَنْ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَبَعْضُ کَلَامِ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا بِهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَفْلَحَ عَنْ إِسْحَقَ وَقَدْ بَيَّنَّا هَذَا عَلَی وَجْهِهِ فِي الْکِتَابِ الَّذِي فِيهِ الْمَوْقُوف ُوَمَا کَانَ فِيهِ مِنْ ذِکْرِ الْعِلَلِ فِي الْأَحَادِيثِ وَالرِّجَالِ وَالتَّارِيخِ فَهُوَ مَا اسْتَخْرَجْتُهُ مِنْ کُتُبِ التَّارِيخِ وَأَکْثَرُ ذَلِکَ مَا نَاظَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ وَمِنْهُ مَا نَاظَرْتُ بِهِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَأَبَا زُرْعَةَ وَأَکْثَرُ ذَلِکَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأَقَلُّ شَيْئٍ فِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ وَأَبِي زُرْعَةَ وَلَمْ أَرَ أَحَدًا بِالْعِرَاقِ وَلَا بِخُرَاسَانَ فِي مَعْنَی الْعِلَلِ وَالتَّارِيخِ وَمَعْرِفَةِ الْأَسَانِيدِ کَبِيرَ أَحَدٍ أَعْلَمَ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَعِيلَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَإِنَّمَا حَمَلَنَا عَلَی مَا بَيَّنَّا فِي هَذَا الْکِتَابِ مِنْ قَوْلِ الْفُقَهَائِ وَعِلَلِ الْحَدِيثِ لِأَنَّا سُئِلْنَا عَنْ هَذَا فَلَمْ نَفْعَلْهُ زَمَانًا ثُمَّ فَعَلْنَاهُ لِمَا رَجَوْنَا فِيهِ مِنْ مَنْفَعَةِ النَّاسِ لِأَنَّا قَدْ وَجَدْنَا غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ تَکَلَّفُوا مِنْ التَّصْنِيفِ مَا لَمْ يُسْبَقُوا إِلَيْهِ مِنْهُمْ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ وَعَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمَبَارَکِ وَيَحْيَی بْنُ زَکَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ وَوَکِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ صَنَّفُوا فَجَعَلَ اللَّهُ فِي ذَلِکَ مَنْفَعَةً کَثِيرَةً فَنَرْجُو لَهُمْ بِذَلِکَ الثَّوَابَ الْجَزِيلَ عِنْدَ اللَّهِ لِمَا نَفَعَ اللَّهُ بِهِ الْمُسْلِمِينَ فَهُمْ الْقُدْوَةُ فِيمَا صَنَّفُوا وَقَدْ عَابَ بَعْضُ مَنْ لَا يَفْهَمُ عَلَی أَهْلِ الْحَدِيثِ الْکَلَامَ فِي الرِّجَالِ وَقَدْ وَجَدْنَا غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ مِنْ التَّابِعِينَ قَدْ تَکَلَّمُوا فِي الرِّجَالِ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَطَاوُسٌ تَکَلَّمَا فِي مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ وَتَکَلَّمَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ فِي طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ وَتَکَلَّمَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ وَعَامِرٌ الشَّعْبِيُّ فِي الْحَارِثِ الْأَعْوَرِ وَهَکَذَا رُوِيَ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ وَشُعْبَةَ بْنِ الْحَجَّاجِ وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِکِ بْنِ أَنَسٍ وَالْأَوْزَاعِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَکِ وَيَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ وَوَکِيعِ بْنِ الْجَرَّاحِ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ وَغَيْرِهِمْ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ تَکَلَّمُوا فِي الرِّجَالِ وَضَعَّفُوا وَإِنَّمَا حَمَلَهُمْ عَلَی ذَلِکَ عِنْدَنَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ النَّصِيحَةُ لِلْمُسْلِمِينَ لَا يُظَنُّ بِهِمْ أَنَّهُمْ أَرَادُوا الْطَعْنَ عَلَی النَّاسِ أَوْ الْغِيبَةَ إِنَّمَا أَرَادُوا عِنْدَنَا أَنْ يُبَيِّنُوا ضَعْفَ هَؤُلَائِ لِکَيْ يُعْرَفُوا لِأَنَّ بَعْضَ الَّذِينَ ضُعِّفُوا کَانَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ وَبَعْضَهُمْ کَانَ مُتَّهَمًا فِي الْحَدِيثِ وَبَعْضَهُمْ کَانُوا أَصْحَابَ غَفْلَةٍ وَکَثْرَةِ خَطَإٍ فَأَرَادَ هَؤُلَائِ الْأَئِمَّةُ أَنْ يُبَيِّنُوا أَحْوَالَهُمْ شَفَقَةً عَلَی الدِّينِ وَتَثْبِيتًا لِأَنَّ الشَّهَادَةَ فِي الدِّينِ أَحَقُّ أَنْ يُتَثَبَّتَ فِيهَا مِنْ الشَّهَادَةِ فِي الْحُقُوقِ وَالْأَمْوَالِ

کروخی، قاضی ابوعامر ازدی و شیخ ابوبکر غورجی و ابومظفر دہان، ابومحمد جراحی، ابوالعباس محبوبی،امام ابوعیسٰی خبر دی ہم کو کرخی نے ان کو قاضی ابوعامر ازدی نے اور شیخ غورجی اور ابومظفر دھان تینوں نے کہا کہ خبر دی ہم ابومحمد جرامی نے ان کو ابوالعاص محبوبی نے ان کو ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہ انہوں نے فرمایا اس کتاب کی تمام احادیث پر عمل ہے بعض علماء نے اس کو اپنایا۔ البتہ دو حدیثیں ایک حضرت ابن عباس کی روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں کسی خوف سفر اور بارش کے بغیر ظہر عصر اور مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں۔ دوسری حدیث یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی آدمی شراب پیے تو اسے کوڑے مارو اگر چوتھی مرتبہ یہ حرکت کرے تو اسے قتل کر دو اور ہم امام ترمذی ان دونوں حدیثوں کی علتیں اس کتاب میں بیان کر چکے ہیں (امام ترمذی کہتے ہیں ہم نے اس کتاب میں فقہاء کے مذاہب بیان کئے اس میں سفیان ثوری کے اقوال میں سے اکثر اقوال ہم نے محمد بن عثمان کوفی سے انہوں نے عبداللہ بن موسیٰ سے اور انہوں نے سفیان ثوری سے نقل کئے ہیں۔ جب کہ بعض اقول ابوالفضل مکتوم بن عباس ترمذی سے وہ محمد بن یوسف فریابی سے اور وہ سفیان ثوری سے نقل کرتے ہیں۔ امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اکثر اقوال اسحاق بن موسیٰ انصاری سے انہوں نے معن بن عیسیٰ فزاری سے اور انہوں نے امام مالک سے نقل کئے ہیں۔ پھر روزوں کے ابواب میں مذکور اشیاء ہم نے ابومصعب مدینی کے واسطے سے امام مالک سے نقل کی ہیں۔ جب کہ امام مالک رحمہ اللہ کے بعض اقوال ہم سے موسیٰ بن حزام نے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی کے واسطے سے امام رحمہ اللہ سے نقل کئے ہیں۔ ابن مبارک کے اقوال احمد بن عبدہ آملی بن مبارک کے شاگروں کے واسطے سے نقل کرتے ہیں۔ پھر ان کے بعض اقوال ابووہب نے ابن مبارک سے نقل کئے کچھ اقوال علی بن حسن نے اور بعض اقوال عبدان نے سفیان بن عبدالملک کے واسطہ سے حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل کئے ہیں۔ حبان بن موسیٰ وہب بن زمعہ بواسطہ فضالہ نسوی اور کچھ دوسرے لوگ بھی ابن مبارک کے اقوال نقل کرتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے اکثر اقوال حسن بن محمد زعفرانی کے واسطے سے امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہیں۔ وضو اور نماز کے ابواب میں مذکور امام شافعی رحمہ اللہ کے اقوال میں بعض ابوولید مکی کے واسطے سے اور بعض ابواسماعیل سے یوسف بن یحیی کے حوالے سے امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کئے ہیں۔ ابواسماعیل اکثر ربیع کے واسطے سے امام شافعی رحمہ اللہ کے اقوال نقل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ربیع نے ہمیں یہ چیزیں بیان کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور اسحاق بن ابراہیم کے اقوال اسحاق منصور نے نقل کیئے البتہ ابواب حج، دیت اور حدود سے متعلق اقوال ہمیں محمد موسیٰ اصم کے واسطہ سے اسحاق بن منصور سے معلوم ہوئے۔ اسحاق کے بعض اقوال محمد بن فلیح بھی کر دیتے ہیں۔ ہم نے اس کتاب میں سندیں اچھی طرح بیان کر دیتے ہیں کہ یہ روایات موقوف ہیں اسی طرح احادیث کی علتیں راویوں کے احوال اور تاریخ وغیرہ بھی مذکور ہیں۔ تاریخ میں (امام ترمذی) نے کتاب التاریخ (امام بخاری کی کتاب) سے نقل کی ہے۔ پھر اکثر علتیں ایسی ہیں جن کے متعلق میں خود امام بخاری سے گفتگو کی ہے جب کہ بعض کے متعلق عبداللہ بن عبدالرحمن ابوزرعہ سے مناظرہ کیا ہے چنانچہ امام بخاری سے اور بعض ابوزرعہ سے نقل کی ہیں۔ ہماری اس کتاب میں فقہاء کے اقوال اور احادیث کی علتیں بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے خود اس کی فرمائش کی تھی۔ چنانچہ ایک مدت تک یہ چیزیں اس میں نہیں تھیں لیکن جب یقین ہوگیا کہ واقعی اس میں فائدہ ہے تو انہیں بھی شامل کر دیا۔ کیونکہ ہم نے دیکھا کہ بہت سے آئمہ کرام نے سخت مشقت اٹھانے کے بعد ایسی تصانیف کیں جو ان سے پہلے نہیں تھی۔ ان میں ہشام بن حسان، عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج، سعد بن ابوعروبہ، مالک بن انس، حماد بن سلمہ، عبداللہ بن مبارک، یحیی بن زکریا ابن ابی زائدہ، وکیع بن جراح اور عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام حضرات اہل علم ہیں۔ ان کی تصانیف سے اللہ نے لوگوں کو فائدہ پہنچایا لہذا وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں عظیم ثواب کے مستحق ہیں۔ پھر یہ لوگ تصنیف کے میدان میں اقتداء کے قابل ہیں۔ بعض حضرات نے محدثین پر نقد وجرح کو اچھا نہیں سمجھا لیکن ہم نے متعدد تابعین کو دیکھا کہ انہوں نے راویوں کے بارے میں گفتگو کی۔ ان میں حسن بسری اور طاؤس بھی ہیں۔ ان دونوں نے معبد جہنی پر اعتراضات کئے ہیں۔ سعید بن جبیر نے طلق بن حبیب پر اور ابراہیم بن نخعی اور عامر شعبی نے حارث اعور پر اعتراضات کئے ہیں۔ ایوب سختیانی، عبداللہ بن عوف، سلمان تیمی، شعبہ بن حجاج، سفیان ثوری، مالک بن انس، اوزاعی، عبداللہ بن مبارک، یحیی بن سعید قطان، وکیع بن جراح اور عبدالرحمن بن مہدی اور کئی دوسرے اہل علم نے رجال (راویوں) کے بارے میں گفتگو کی ہے اور انہیں ضعیف قرار دیا۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ مسلمانوں کی خیر خواہی ہے۔ و اللہ اعلم۔ یہ گمان مناسب نہیں کہ ان اہل علم حضرات نے طعن و تشنیع یا غیبت کا ارادہ کیا بلکہ انہوں نے ان کا ضعف اس لئے بیان کیا کہ حدیث میں ان کی پہچان ہو سکے کیونکہ ان ضعفاء میں کوئی صاحب عدت تھا کوئی مہتم تھا کوئی اکثر غلطیوں کا مرتکب ہوتا تھا کوئی غفلت برتتا تھا اور کوئی حافظے کی کمزوری کی وجہ سے اپنی حدیث بھول جایا کرتا تھا۔ پھر اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دین کی گواہی تحقیقات کی زیادہ محتاج ہے بہ نسبت حقوق و اموال کے۔ لہذا اکثر ان میں (حقوق واموال) میں بھی گواہوں کو تزکیہ ضروری ہے تو اس میں (یعنی دین میں) تو بدرجہ اولی ضروری ہے۔

Classification of Ahadith of Jami Tirmidhi According to Allama Nasiruddin Albani

یہ حدیث شیئر کریں