جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ حدیث کی علتوں اور راویوں کا بیان ۔ حدیث 1989

حدیث کی علتوں اور راویوں کی جرح اور تعدیل کے بارے میں

راوی: ابوحفص , عمرو بن علی , یحیی بن سعید قطان , مغیرہ بن ابی قرة سدوسی , انس بن مالک ,

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا الْمُغْيرَةُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ السَّدُوسِيُّ قَال سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْقِلُهَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اعْقِلْهَا وَتَوَکَّلْ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ هَذَا عِنْدِي حَدِيثٌ مُنْکَرٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا وَقَدْ وَضَعْنَا هَذَا الْکِتَابَ عَلَی الِاخْتِصَارِ لِمَا رَجَوْنَا فِيهِ مِنْ الْمَنْفَعَةِ بِمَا فِيهِ وَأَنْ لَا يَجْعَلَهُ عَلَيْنَا وَبَالًا بِرَحْمَتِهِ آمِينَ

ابوحفص، عمرو بن علی، یحیی بن سعید قطان، مغیرہ بن ابی قرة سدوسی، انس بن مالک، ہم سے روایت کیا ابوحفص عمرو بن علی نے انہوں نے یحیی بن سعید قطان سے وہ مغیرہ بن ابی قرة السدوسی سے اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں اونٹ باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے ہی اللہ پر بھروسہ رکھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے باندھو اور بھروسہ کرو۔ عمرو بن علی کہتے ہیں کہ یہ حدیث یحیی بن سعید کے نزدیک منکر ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے جانتے ہیں پھر یہ عمرو بن امیہ ضمری سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی کی ماند منقول ہے۔ ہم (امام ترمذی) نے اس کتاب میں انتہائی اختصار سے کام لیا ہے اور امید کرتے ہیں کہ یہ فائدہ مند ہوگی اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس سے نفع پہنچائے اور اپنی رحمت سے فلاح و نجات کا باعث بنائے نہ کہ وبال کا ۔

یہ حدیث شیئر کریں