شمائل ترمذی ۔ جلد اول ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا بیان ۔ حدیث 349

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے گزر اوقات کا ذکر

راوی:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وسلم فِي سَاعَةٍ لا يَخْرُجُ فِيهَا وَلا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ فَأَتَاهُ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ مَا جَائَ بِکَ يَا أَبَا بَکْرٍ قَالَ خَرَجْتُ أَلْقَی رَسُولَ اللهِ صلی الله عليه وسلم وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَائَ عُمَرُ فَقَالَ مَا جَائَ بِکَ يَا عُمَرُ قَالَ الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ صلی الله عليه وسلم وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِکَ فَانْطَلَقُوا إِلَی مَنْزِلِ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ التَّيْهَانِ الأَنْصَارِيِّ وَکَانَ رَجُلا کَثِيرَ النَّخْلِ وَالشَّائِ وَلَمْ يَکُنْ لَهُ خَدَمٌ فَلَمْ يَجِدُوهُ فَقَالُوا لامْرَأَتِهِ أَيْنَ صَاحِبُکِ فَقَالَتِ انْطَلَقَ يَسْتَعْذِبُ لَنَا الْمَائَ فَلَمْ يَلْبَثُوا أَنْ جَائَ أَبُو الْهَيْثَمِ بِقِرْبَةٍ يَزْعَبُهَا فَوَضَعَهَا ثُمَّ جَائَ يَلْتَزِمُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وسلم وَيُفَدِّيهِ بِأَبِيهِ وَأُمِّهِ ثُمَّ انْطَلَقَ بِهِمْ إِلَی حَدِيقَتِهِ فَبَسَطَ لَهُمْ بِسَاطًا ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَی نَخْلَةٍ فَجَائَ بِقِنْوٍ فَوَضَعَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم أَفَلا تَنَقَّيْتَ لَنَا مِنْ رُطَبِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي أَرَدْتُ أَنْ تَخْتَارُوا أَوْ تَخَيَّرُوا مِنْ رُطَبِهِ وَبُسْرِهِ فَأَکَلُوا وَشَرِبُوا مِنْ ذَلِکَ الْمَائِ فَقَالَ صلی الله عليه وسلم هَذَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مِنِ النَّعِيمِ الَّذِي تُسْأَلُونَ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ظِلٌّ بَارِدٌ وَرُطَبٌ طَيِّبٌ وَمَائٌ بَارِدٌ فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ لِيَصْنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم لا تَذْبَحَنَّ ذَاتَ دَرٍّ فَذَبَحَ لَهُمْ عَنَاقًا أَوْ جَدْيًا فَأَتَاهُمْ بِهَا فَأَکَلُوا فَقَالَ صلی الله عليه وسلم هَلْ لَکَ خَادِمٌ قَالَ لا قَالَ فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا فَأُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم اخْتَرْ مِنْهُمَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ اخْتَرْ لِي فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ خُذْ هَذَا فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي وَاسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا فَانْطَلَقَ أَبُو الْهَيْثَمِ إِلَی امْرَأَتِهِ فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وسلم فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ حَقَّ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وسلم إِلا بِأَنْ تَعْتِقَهُ قَالَ فَهُوَ عَتِيقٌ فَقَالَ صلی الله عليه وسلم إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلا خَلِيفَةً إِلا وَلَهُ بِطَانَتَانِ بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْکَرِ وَبِطَانَةٌ لا تَأْلُوهُ خَبَالا وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوئِ فَقَدْ وُقِيَ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت دولت خانہ سے باہر تشریف لائے کہ اس وقت نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ باہر تشریف لانے کی تھی نہ کوئی شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت دولت خانہ پر حاضر ہوتا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی باہر تشریف آوری پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے خلاف معمول بے وقت آنے کا سبب دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ جمال جہاں آرا کی زیارت اور سلام کے لئے حاضر ہوا ہوں ( حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمال تناسب کی وجہ سے تھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر خلاف عادت باہر تشریف آوری کی نوبت آئی تو اس یک جان دو قالب پر بھی اس کا اثر ہوا) بندہ کے نزدیک یہی وجہ اولیٰ ہے اور یہی کمال تناسب بڑی وجہ ہے نبوی دور کے ساتھ خلافت صدیقیہ کے اتصال کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اگر مناسب تامہ نہ ہونے کی وجہ وقتی احکام میں کچھ تغیر ضرور ہوتا اور صحابہ کرام کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے ساتھ یہ دوسرا مرحلہ مل کر رنج وملال کو ناقابل برداشت بنانے والا ہوتا بخلاف صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس درجہ اتصال اور قلبی یک جہتی تھی کہ جن مواقع پر جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل تھا وہی اکثر حضرت ابوبکر صدیق کا بھی تھا۔ چنانچہ حدیبیہ کا قصہ مشہور ہے جس کا ذکر حکایات صحابہ میں گزر چکا ہے مسلمانوں نے نہایت دب کر ایسی شرائط پر کفار سے صلح کی تھی کہ بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کا تحمل بھی نہ کرسکے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت جوش میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک۔ حضرت عمر نے کہا کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ۔ حضرت عمرنے کہا پھر ہم کو دین کے بارے میں یہ ذلت کیوں دی جارہی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور اس کی نافرمانی نہیں کر سکتا وہی مددگار ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور طواف کریں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہا بے شک لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی سال مکہ میں جائیں گے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں یہ تو نہیں کہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، بس تو مکہ میں ضرور جائے گا اور طواف کرے گا۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی جوش میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ابوبکر! کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برحق نبی نہیں ہیں؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا بے شک۔ حضرت عمر! کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! بے شک ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! پھر ہم کو دین کے بارے میں یہ ذلت کیوں دی جا رہی ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! اے آدمی! یہ بلاتردد سچے رسول ہیں اور اللہ کی ذرا نافرمانی کرنے والے نہیں ہیں وہی ان کا مددگار ہے تو ان کی رکاب کو مضبوط پکڑے رہ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ نہیں کہا تھا کہ ہم مکہ جائیں گے اور طواف کریں گے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! کیا تجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ اسی سال مکہ جائیں گے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! نہیں یہ تو نہیں فرمایا تھا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! بس تو مکہ میں ضرور جائے گا اور طواف کرے گا۔ بخاری شریف میں یہ قصہ مفصل مذکورہ ہے اور بھی اس قسم کے متعدد واقعات حیرت انگیز ہیں ۔ حتیٰ کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتہادی خطا ہوئی تو اس میں حضرت ابوبکر شریک ہیں جیساکہ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں جس کا قصہ سورت انفال کے اخیر میں ہے۔ اس صورت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس وقت خلاف معمول باہر آنا دل را بدل رہ یست000، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کا اثر تھا گو بھوک بھی لگی ہوئی ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آنا بھی بھوک کے تقاضے کی وجہ سے تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کو دیکھ کر اس کا خیال بھی جاتا رہا اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر اس کا ذکر نہیں کیا
(یاد سب کچھ ہیں مجھے ہجر کے صدمے ظالم بھول جاتا ہوں مگر دیکھ کے صورت تیری)۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تشریف آوری بھوک ہی کی وجہ سے تھی مگر اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرانی نہ ہو کہ دوست کی تکلیف اپنی تکلیف پر غالب ہوجایا کرتی ہے) تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حاضر خدمت ہوئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بے وقت حاضری کا سبب پوچھا انہوں نے عرض کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بھوک تو کچھ میں بھی محسوس کر رہا ہوں ۔ اس کے بعد تینوں حضرات ابوالہیثم انصاری کے مکان پر تشریف لے گئے وہ اہل ثروت لوگوں میں سے تھے کھجوروں کا بڑا باغ تھا۔ بکریاں بھی بہت سی تھی۔ البتہ خادم ان کے پاس کوئی نہیں تھا اس لئے گھر کا کام سب خود ہی کرنا پڑتا تھا۔ یہ حضرات جب ان کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ گھر والوں کے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہیں جو خادم نہ ہونے کی وجہ سے خود ہی لانا پڑتا تھا۔ لیکن ان حضرات کے پہنچنے پر تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ بھی مشکیزہ کو جو مشکل سے اٹھتا تھا۔ بدقت اٹھاتے ہوئے واپس آگئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہو کر (اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتے اور زبان حال ہم نشین جب میرے ایام بھلے آئیں گے بن بلائے میرے گھر آپ چلے آئیں گے پڑھتے ہوئے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لپٹ گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے ماں باپ کو نثار کرنے لگے۔ یعنی عرض کرتے تھے کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ۔ اس کے بعد باغ میں چلنے کی درخواست کی وہاں پہنچ کر فرش بچھایا اور دین و دنیا کے سردار مایہ فخر مہمان کو بٹھا کر ایک خوشہ (جس میں طرح طرح کی کچی پکی آدھ کچھری کھجوریں تھیں) سامنے حاضر کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سارا خوشہ توڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس میں ابھی کچھ کچی بھی ہیں جو ضائع ہوں گی۔ پکی پکی چھانٹ کر کیوں نہ توڑیں؟ میزبان نے عرض کیا تاکہ اپنی پسند سے پکی اور گرری ہر نوع کی حسب رغبت نوش فرمائیں ۔ تینوں حضرات نے کھجوریں تناول فرمائیں اور پانی نوش فرمایا اس کے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (جن کا ہر ہر لحظہ تعلیم امت تھا) ارشاد فرمایا کہ اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ بھی اس نعیم میں شامل ہے جس کا سوال قیامت میں ہوگا اور سورت الہٰکم التکاثر کے ختم پر حق تعالیٰ شانہ نے اس کا ذکر فرمایا ان کے شکر کے متعلق سوال ہوگا کہ ہماری نعمتوں کا کس درجہ شکر ادا کیا اللہم لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک پھر اس وقت کی نعمتوں کا اظہار کے طور پر فرمایا کہ) ٹھنڈا سایہ، ٹھنڈا پانی اور ترو تازہ کھجوریں ۔ اس کے بعد میزبان کھانے کی تیاری کے لئے جانے لگے۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فرط محبت میں کیفما اتفق مت ذبح کر دینا۔ بلکہ ایسا جانور ذبح کرنا جو دودھ کا نہ ہو میزبان نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور بعجلت تمام کھانا تیار کر کے حاضر خدمت کیا اور مہمانوں نے تناول فرمایا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس وقت یہ ملاحظہ فرما کر کہ مشتاق میزبان سب کام خود ہی کر رہا ہے اور شروع میں میٹھا پانی بھی خود ہی لاتے دیکھا تھا) دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی خادم نہیں ۔ نفی میں جواب ملنے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کہیں سے غلام آجائیں تو تم یاد دلانا اس وقت تمہاری ضرورت کا خیال رکھا جائے گا۔ اتفاقاً ایک جگہ سے دو غلام آئے تو ابوالہیثم نے حاضر ہو کر وعدہ عالی جاہ کی یاد دہانی کرائی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں غلاموں میں سے جو دل چاہے پسند کر لو۔ جو تمہاری ضرورت کے مناسب ہو (یہ جان نثار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنی کیا رائے رکھتے اس لئے) درخواست کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی میرے لئے پسند فرمائیں (وہاں بجز دینداری کے اور کوئی وجہ ترجیح اور پسندیدگی کی ہو ہی نہیں سکتی تھی اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے اس لئے میں امین ہونے کی حیثیت سے فلاں غلام کو پسند کرتا ہوں اس لئے کہ میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے لیکن میری ایک وصیت اس کے بارے میں یاد رکھیو کہ اس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیجیو (اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کے ضابطہ کو ذکر فرما کر گویا اس پر تنبیہ فرمائی کہ میری جو پسندیدگی ہے وہ ذمہ دارانہ اور امانتداری کی ہے پھر ایک کو پسند فرما کر وجہ ترجیح بھی ظاہر فرمائی کہ وہ نمازی ہے۔ یہ وجہ ہے اس کو راجح قرار دینے کی۔ ہمارے زمانہ میں ملازم کا نمازی ہونا گویا عیب ہے کہ آقا کے کام کا حرج ہوتا ہے) ابوالہیثم خوش خوش اپنی ضرورتوں کے لئے ایک مددگار ساتھ لے کر گھر گئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان بھی بیوی کو سنادیا۔ بیوی نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ کے ارشاد کی کماحقہ تعمیل نہ ہوسکے گی اور اس درجہ بھلائی کا معاملہ کہ ارشاد عالی جاہ کا امتثال ہوجائے ہم سے نہ ہوسکے گا اس لئے اس کو آزاد ہی کردو کہ اسی سے امتثال ارشاد ممکن ہے سراپا شجاع اور مجسم اخلاص خاوند نے فوراً آزاد کردیا اور اپنی دقتوں اور تکالیف کی ذرا بھی پرواہ نہ کی۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو جب واقعہ اور جانثار صحابی کے ایثار کا حال معلوم ہوا تو اظہار مسرت اور بیوی کی مدح کے طور پر ارشاد فرمایا کہ ہر نبی اور اس کے جانشینوں کے لئے حق تعالیٰ شانہ دو باطنی مشیر اور اصلاح کار پیدا فرماتے ہیں جن میں سے ایک مشیر تو بھلائی کی ترغیب دیتا اور برائی سے روکتا ہے دوسرا مشیر تباہ وبرباد کرنے میں ذرا بھی کمی نہیں کرتا۔ جو شخص اس کی برائی سے بچا دیا جائے وہ ہر قسم کی برائی سے روک دیا گیا۔

Abu Hurayrah Radiyallahu 'Anhu reports: "Once Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam came out of his house at such a time, that it was not his noble habit to do so at that time. Nor did anyone come to meet him at that time. At that moment Abubakr Radiyallahu 'Anhu came to Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. He asked: 'What brought you here, O Abubakr?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'I came out to meet the Rasul of Allah, and look at his noble face. (This was due to the complete relationship of Abubakr Siddiqe Radiyallahu 'Anhu, that when Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam unexpectedly came out of his house, it had an effect on Abubakr Radiyallahu 'Anhu. According to this humble servant, this is the best explanation, and this complete relationship is the reason for the continuity of the khilaafah of Abubakr Radiyallahu 'Anhu with the nabawi period after the death of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. If someone else had been elected as a khalifah, then due to the incomplete relationship, there would have been some changes in the laws of the time. It would have been an additional sorrow after the demise of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam for the Sahaabah, and would have been unacceptable to them, whereas, Abubakr Radiyallahu'Anhu had such a close and deep relationship with Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam that on many aspects Abubakr Siddiqe Radiyallahu 'Anhu had the same thoughts as that of Sayyidina Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam. The incident of Hudaybiyyah is a testimony to this, which has already been mentioned in the book: 'Stories of the Sahaabah'. The Muslims felt so much humilation in accepting the harsh conditions of the non-believers that many among the Sahaabah could not bear it. 'Umar Radiyallahu 'Anhu anxiously came to Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam and said: 'O Messenger of Allah, are you not the truthful Nabi of Allah?' Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam replied: 'Indeed, I am'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu said: 'Are we not on The Haq (True Path) and the enemy on falsehood?' Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam replied: 'Truly indeed'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu said: 'Why are we being degraded in this manner in our deen?' Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam replied: "I am the Messenger of Allah, and I cannot disobey Him. Verily He is my protector'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu said: 'Did you not say to us that we are going to Makkah, and are going to perform the tawaaf?' Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'Verily it is true, but did I say that we will go this year to Makkah?' 'Umar Radiyallahu 'Anhu replied: 'No, you did not say this'. Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam then said: 'We will surely go to Makkah and perform tawaaf'. After this 'Umar Radiyallahu 'Anhu with the same zeal went to Abubakr Radiyallahu 'Anbu and said: 'O Abubakr, is this not the truthful Nabi of Allah?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'Verily, yes'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu asked: 'Are we not on the truth and the non-believers on falsehood?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'Verily, true'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu then said: 'Why are we being disgraced in this manner for our deen?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'O man, without doubt, he is the truthful nabi, and he does not disobey Allah in the least, and only Allah is his protector. Hold fast unto his reigns'. 'Umar Radiyallahu 'Anhu replied: 'Did he not say to us that we will be going to Makkah, and will be performing the tawaaf?' Abubakr Radiyallahu 'Anhu replied: 'Did he promise you this that we will go this year?' 'Umar Radiyallahu 'Anhu replied: 'No, he did not say this to us'. Abubakr Radiyallahu 'Anhu said. 'You will go to Makkah and will also perform tawaaf '. This incident has been mentioned in detail in the Bukhaari.' There are many other similar amazing incidents. Even when Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam committed an ijtihaadi slip up, Abubakr Radiyallahu 'Anhu would also in that instance have the same opinion, as was the case with the prisoners of the Battle of Badr, the incident of which is mentioned at the end of Suratul Anfaal.
In this case Abubakr Radiyallahu 'Anhu presenting himself at an unusual moment is the case of the soul of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam having an influence on the heart of Abubakr Radiyallahu 'Anhu, as if he was also feeling hungry.

I remember everything of the Sorrow of separation O (beloved) Zaalim But I forget everything after seeing your countenance.
Some of the 'ulama state the coming of Abubakr Radiyallahu 'Anhu was due to hunger, but after seeing Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam this feeling of hunger vanished. Therefore on the inquiry of Sayyidina Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam, he did not mention this.
Some of the 'ulama have written that Abubakr Radiyallahu 'Anhu came due to the hunger he experienced, but he did not mention this, because it may become difficult for Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, for the difficulties of a friend supersedes the difficulties of one's self). A little while passed, when 'Umar Radiyallahu 'Anhu presented himself. Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam asked him the reason of presenting himself at such an odd time. He replied: 'Because of hunger, O Messenger of Allah'. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'I am also experiencing a bit of that'. All then went to the house of Abul Haytham Ansaari Radiyallahu'Anhu. He was the owner of many date palms, trees and sheep, and he did not have any servants. (For this reason he did all the work himself). They did not find him there. They asked his wife, 'Where is your companion?' She replied: 'He has gone to bring sweet water for us'. A little while had not passed, when Abul Haytham Radiyallahu 'Anhu experiencing difficulty arrived carrying the water bag. He put it down. He then came and honoured Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, his noble guest, and was pleased by the honour of meeting Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam, (and proud of his good fortune, reciting and embracing him)
O companion when my benevolent moments will come. Without invitation you will come away to my home.
and began to sacrifice on Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam his father and mother. (i,.e. He was saying, may my father and mother be sacrificed on you). After that he requested them to come to his palm grove. He spread out for them a mat, then went to a palm and brought a,whole bunch (which had ripe, half ripe etc. kinds of dates on it), and put it before them. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'Why did you not only pick the ripe ones'. (rather than bringing the whole bunch). He (the host) said. 'Eat what pleases you from it'. They ate from it, and drank water. Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said there after, (of which every moment of his life was a means of education for the ummah), I swear an oath by the Being in whose hands lies my life, this is also included among those blessings of which one will be asked on the day of qiyaamah, (which Allah Ta'aala has mentioned at the end of Surah Takathur. It will be asked regarding gratitude. He then counted the blessings of that moment), the cool shadow, good fresh dates, and cold water. Thereafter the host started going to prepare meals, whereupon Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam said to him, in happiness do not just slaughter any animal, but slaughter an animal that does not give milk. The host slaughtered for them a female or male young goat. (He quickly prepared the food), and presented it before them. They partook of it' (Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam noticed that he was doing all the work by himself, and at the beginning he had brought the sweet water himself too). Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam inquired: 'Have you not any servants?' He replied: 'No' Whereupon Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'When slaves shall arrive, remind us. Incidentally only two slaves were brought to Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. Abul Haytham Radiyallahu 'Anhu came to remind Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam of his promise. Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam said: 'Choose any one of them'. (Where will such a Sahaabi who has sacrificed himself for Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam put forward his own desire in the presence of Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam. Therefore,) He said: 'O Nabi of Allah, you choose one for me'. (Besides piety, there could have been no other reason for liking and choosing a slave) Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'An adviser is trustworthy (and by me being the trustworthy person) I choose this slave for you, as I had seen him perform his salaah. Remember my one advice, and that is to treat him well'. (First Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam mentioned the rule an adviser must adopt. Then reminded that my choice will be a responsible and trustworthy one. He then chose one and gave his reason for it, that the slave is one that upkeeps the salaah, therefore this slave was given preference. In our times, for an employee to be punctual with the salaah is a fault,' as it hinders the work of the employer). Abul Haytham Radiyallahu 'Anhu went (happily home, that he had someone to help him in his chores) to his wife, and told her what Rasulullah Sallallahu'Alayhi Wasallam had said. His wife said: "You will not be able to fulfil exactly that which Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam had commanded. It is difficult for us to truly carry out that noble advice, therefore free him, for by this it will be possible to fulfil the commands of Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam'. The husband then said,. 'He is free'. (He did not care the least for his troubles and difficulties. When Sayyidina Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam came to know about this honourable sacrifice) Rasulullah Sallallahu 'Alayhi Wasallam said: 'For every nabi and his successors Allah Ta'aala creates two concealed advisers. One of which induces to do good and saves from committing evil. The other advises not to care the least in ruining and destroying a person. The one that is saved from this persons wickedness, is being saved from all ruin and destruction".

یہ حدیث شیئر کریں