موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ کتاب قرض کے بیان میں ۔ حدیث 1291

جو شرط مضاربت میں درست نہیں اس کا بیان

راوی:

بَاب مَا لَا يَجُوزُ مِنْ الشَّرْطِ فِي الْقِرَاضِ قَالَ يَحْيَى قَالَ مَالِك لَا يَنْبَغِي لِصَاحِبِ الْمَالِ أَنْ يَشْتَرِطَ لِنَفْسِهِ شَيْئًا مِنْ الرِّبْحِ خَالِصًا دُونَ الْعَامِلِ وَلَا يَنْبَغِي لِلْعَامِلِ أَنْ يَشْتَرِطَ لِنَفْسِهِ شَيْئًا مِنْ الرِّبْحِ خَالِصًا دُونَ صَاحِبِهِ وَلَا يَكُونُ مَعَ الْقِرَاضِ بَيْعٌ وَلَا كِرَاءٌ وَلَا عَمَلٌ وَلَا سَلَفٌ وَلَا مِرْفَقٌ يَشْتَرِطُهُ أَحَدُهُمَا لِنَفْسِهِ دُونَ صَاحِبِهِ إِلَّا أَنْ يُعِينَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ عَلَى غَيْرِ شَرْطٍ عَلَى وَجْهِ الْمَعْرُوفِ إِذَا صَحَّ ذَلِكَ مِنْهُمَا وَلَا يَنْبَغِي لِلْمُتَقَارِضَيْنِ أَنْ يَشْتَرِطَ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ زِيَادَةً مِنْ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ وَلَا طَعَامٍ وَلَا شَيْءٍ مِنْ الْأَشْيَاءِ يَزْدَادُهُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ قَالَ فَإِنْ دَخَلَ الْقِرَاضَ شَيْءٌ مِنْ ذَلِكَ صَارَ إِجَارَةً وَلَا تَصْلُحُ الْإِجَارَةُ إِلَّا بِشَيْءٍ ثَابِتٍ مَعْلُومٍ وَلَا يَنْبَغِي لِلَّذِي أَخَذَ الْمَالَ أَنْ يَشْتَرِطَ مَعَ أَخْذِهِ الْمَالَ أَنْ يُكَافِئَ وَلَا يُوَلِّيَ مِنْ سِلْعَتِهِ أَحَدًا وَلَا يَتَوَلَّى مِنْهَا شَيْئًا لِنَفْسِهِ فَإِذَا وَفَرَ الْمَالُ وَحَصَلَ عَزْلُ رَأْسِ الْمَالِ ثُمَّ اقْتَسَمَا الرِّبْحَ عَلَى شَرْطِهِمَا فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لِلْمَالِ رِبْحٌ أَوْ دَخَلَتْهُ وَضِيعَةٌ لَمْ يَلْحَقْ الْعَامِلَ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ لَا مِمَّا أَنْفَقَ عَلَى نَفْسِهِ وَلَا مِنْ الْوَضِيعَةِ وَذَلِكَ عَلَى رَبِّ الْمَالِ فِي مَالِهِ وَالْقِرَاضُ جَائِزٌ عَلَى مَا تَرَاضَى عَلَيْهِ رَبُّ الْمَالِ وَالْعَامِلُ مِنْ نِصْفِ الرِّبْحِ أَوْ ثُلُثِهِ أَوْ رُبُعِهِ أَوْ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرَ قَالَ مَالِك لَا يَجُوزُ لِلَّذِي يَأْخُذُ الْمَالَ قِرَاضًا أَنْ يَشْتَرِطَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ سِنِينَ لَا يُنْزَعُ مِنْهُ قَالَ وَلَا يَصْلُحُ لِصَاحِبِ الْمَالِ أَنْ يَشْتَرِطَ أَنَّكَ لَا تَرُدُّهُ إِلَيَّ سِنِينَ لِأَجَلٍ يُسَمِّيَانِهِ لِأَنَّ الْقِرَاضَ لَا يَكُونُ إِلَى أَجَلٍ وَلَكِنْ يَدْفَعُ رَبُّ الْمَالِ مَالَهُ إِلَى الَّذِي يَعْمَلُ لَهُ فِيهِ فَإِنْ بَدَا لِأَحَدِهِمَا أَنْ يَتْرُكَ ذَلِكَ وَالْمَالُ نَاضٌّ لَمْ يَشْتَرِ بِهِ شَيْئًا تَرَكَهُ وَأَخَذَ صَاحِبُ الْمَالِ مَالَهُ وَإِنْ بَدَا لِرَبِّ الْمَالِ أَنْ يَقْبِضَهُ بَعْدَ أَنْ يَشْتَرِيَ بِهِ سِلْعَةً فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُ حَتَّى يُبَاعَ الْمَتَاعُ وَيَصِيرَ عَيْنًا فَإِنْ بَدَا لِلْعَامِلِ أَنْ يَرُدَّهُ وَهُوَ عَرْضٌ لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ لَهُ حَتَّى يَبِيعَهُ فَيَرُدَّهُ عَيْنًا كَمَا أَخَذَهُ قَالَ مَالِك وَلَا يَصْلُحُ لِمَنْ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَيْهِ الزَّكَاةَ فِي حِصَّتِهِ مِنْ الرِّبْحِ خَاصَّةً لِأَنَّ رَبَّ الْمَالِ إِذَا اشْتَرَطَ ذَلِكَ فَقَدْ اشْتَرَطَ لِنَفْسِهِ فَضْلًا مِنْ الرِّبْحِ ثَابِتًا فِيمَا سَقَطَ عَنْهُ مِنْ حِصَّةِ الزَّكَاةِ الَّتِي تُصِيبُهُ مِنْ حِصَّتِهِ وَلَا يَجُوزُ لِرَجُلٍ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَى مَنْ قَارَضَهُ أَنْ لَا يَشْتَرِيَ إِلَّا مِنْ فُلَانٍ لِرَجُلٍ يُسَمِّيهِ فَذَلِكَ غَيْرُ جَائِزٍ لِأَنَّهُ يَصِيرُ لَهُ أَجِيرًا بِأَجْرٍ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَدْفَعُ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا وَيَشْتَرِطُ عَلَى الَّذِي دَفَعَ إِلَيْهِ الْمَالَ الضَّمَانَ قَالَ لَا يَجُوزُ لِصَاحِبِ الْمَالِ أَنْ يَشْتَرِطَ فِي مَالِهِ غَيْرَ مَا وُضِعَ الْقِرَاضُ عَلَيْهِ وَمَا مَضَى مِنْ سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ فِيهِ فَإِنْ نَمَا الْمَالُ عَلَى شَرْطِ الضَّمَانِ كَانَ قَدْ ازْدَادَ فِي حَقِّهِ مِنْ الرِّبْحِ مِنْ أَجْلِ مَوْضِعِ الضَّمَانِ وَإِنَّمَا يَقْتَسِمَانِ الرِّبْحَ عَلَى مَا لَوْ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ عَلَى غَيْرِ ضَمَانٍ وَإِنْ تَلِفَ الْمَالُ لَمْ أَرَ عَلَى الَّذِي أَخَذَهُ ضَمَانًا لِأَنَّ شَرْطَ الضَّمَانِ فِي الْقِرَاضِ بَاطِلٌ قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا وَاشْتَرَطَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَبْتَاعَ بِهِ إِلَّا نَخْلًا أَوْ دَوَابَّ لِأَجْلِ أَنَّهُ يَطْلُبُ ثَمَرَ النَّخْلِ أَوْ نَسْلَ الدَّوَابِّ وَيَحْبِسُ رِقَابَهَا قَالَ مَالِك لَا يَجُوزُ هَذَا وَلَيْسَ هَذَا مِنْ سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ فِي الْقِرَاضِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِيَ ذَلِكَ ثُمَّ يَبِيعَهُ كَمَا يُبَاعُ غَيْرُهُ مِنْ السِّلَعِ قَالَ مَالِك لَا بَأْسَ أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُقَارِضُ عَلَى رَبِّ الْمَالِ غُلَامًا يُعِينُهُ بِهِ عَلَى أَنْ يَقُومَ مَعَهُ الْغُلَامُ فِي الْمَالِ إِذَا لَمْ يَعْدُ أَنْ يُعِينَهُ فِي الْمَالِ لَا يُعِينُهُ فِي غَيْرِهِ

کہا مالک نے رب المال کو یہ درست نہیں کہ نفع میں سے کچھ خاص اپنے لئے نکال لے نہ مضاربت کو درست ہے اور مضاربت کے ساتھ یہ درست نہیں کہ کسی بیع یا کرائے یا قرض یا اور کوئی احسان کی شرط ہو البتہ یہ درست ہے کہ بلاشرط ایک دوسرے کی مدد کرے موافق دستور کے اور یہ درست نہیں کہ کوئی ان میں سے دوسرے پر زیادتی کی شرط کرلے خواہ وہ زیادتی سونے یا چاندی یا طعام اور کسی قسم سے ہو اگر مضاربت میں ایسی شرطیں ہوں تو وہ اجارہ ہوجائے گا پھر اجارہ درست نہیں مگر معین معلوم اجرت کے بدلے میں اور مضاربت کو درست نہیں کہ کسی کے احسان کا بدلہ مضاربت میں سے ادا کرے نہ یہ درست ہے کہ مضاربت کے مال کو تولیہ کے طور پر دے یا آپ لے۔ اگر مال میں نفع ہو تو دونوں نفع کو بانٹ لیں گے اپنی شرط کے موافق اگر نفع نہ ہو یا نقصان ہو تو مضا رب پر ضمان نہ ہوگا نہ اپنے خرچ کا نہ نقصان کا بلکہ مالک کا ہوگا۔ اور مضاربت درست ہے جب رب المال اور مضا رب راضی ہوجائیں نفع کے تقسیم کرنے پر آدھوں آدھ یا دوتہائی رب المال کا اور ایک تہائی مضا رب کا یا تین ربع رب المال کے ایک ربع مضا رب کا یا اس سے کم یا زیادہ۔
کہا مالک نے مضا رب اگر یہ شرط کرنے کہ اتنے برس تک رائس المال مجھ سے واپس نہ لیا جائے یا رب المال یہ شرط کرے کہ اتنے برس تک مضا رب رائس المال نہ دے تو یہ درست نہیں ۔ کیونکہ مضاربت میں میعاد نہیں ہوسکتی جب رب المال اپنا روپیہ مضا رب کے حوالے کرے اور مضا رب کو اس میں تجارت کرنا اچھا معلوم نہ ہو اگر وہ روپیہ بجنسہ اسی طرح موجود ہے تو رب المال اپنا روپیہ لے لے اگر مضا رب ان روپوں کے بدلے میں کوئی اسباب خرید کرچکا تو رب المال اس اسباب کو نہیں لے سکتا نہ مضا رب دے سکتا ہے جب تک اس اسباب کو بیچ کر نقد روپیہ نہ کرلے۔
کہا مالک نے رب المال مضا رب سے یہ شرط کرلے کہ زکوة اپنے نفع کے حصہ میں سے دینا تو درست نہیں نہ رب المال کو یہ شرط لگانا درست ہے کہ مضا رب خواہ مخواہ فلانے ہی شخص سے اسباب خریدے۔
کہا مالک نے اگر رب المال مضا رب پر ضمان کی شرط کرلے تو درست نہیں اس صورت میں اگر نفع ہو تو مضا رب کو شرط سے زیادہ اس وجہ سے نقصان کا تاوان لیا تھا نہ ملے گا اگر مال تلف ہوایا اس میں نقصان ہو تو مضا رب پر تاوان نہ ہوگاگو اس نے تاوان کی شرط لگائی ہو۔

Yahya said that Malik said, "The person who puts up the principal must not stipulate that he has something of the profit alone without the agent sharing in it, nor must the agent stipulate that he has something of the profit alone without the investor sharing. In qirad, there is no sale, no rent, no work, no advance, and no convenience which one party specifies to himself without the other party sharing unless one party allows it to the other unconditionally as a favour and that is alright to both. Neither of the parties should make a condition over the other which increases him in gold or silver or food over the other party."

یہ حدیث شیئر کریں