مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 10

دوہرا اجرپانے والے

راوی:

وعن أبي موسى الأشعري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ثلاثة لهم أجران : رجل من أهل الكتاب آمن بنبيه وآمن بمحمد والعبد المملوك إذا أدى حق الله وحق مواليه ورجل كانت عنده أمة يطؤها فأدبها فأحسن تأديبها وعلمها فأحسن تعليمها ثم أعتقها فتزوجها فله أجران "

" اور حضرت ابوموسیٰ اشعری (آپ جلیل القدر صحابی ہیں، پہلی ہجرت حبشہ میں شریک تھے۔ ذی الحجہ ٤٤ھ میں مکہ میں انتقال ہوا۔)
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کو دو دو اجر ملیں گے۔ اس اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) کو جو (پہلے) اپنے نبی پر ایمان رکھتا اور پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لایا۔ اس غلام کو جو اللہ کے حقوق بھی ادا کرے اور اپنے آقاؤں کے حق کو بھی ادا کرتا رہے ۔ اس آدمی کو جسکی کوئی لونڈی تھی اور وہ اس سے صحبت کرتا تھا۔ پہلے اس کو اچھا ہنر مند بنایا پھر اس کو خوب اچھی طرح تعلیم دی اور پھر اس کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا تو یہ بھی دوہرے اجر کا حقدار ہوگا۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
اس ارشاد گرامی کا مقصد ان تین طرح کے لوگوں کو خوشخبری دینا ہے جن کو اوروں کے مقابلہ میں نیک عمل کا دوہرا اجر ملتا ہے۔ ان میں پہلی قسم کے لوگ وہ اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) ہیں جو پہلے تو اپنے دین پر تھے اور پھر دعوت اسلام پا کر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ان کو دو ہرے اجر کی خوشخبری اس بنا پر دی گئی ہے کہ ان کا پہلے اپنے نبی کو پختہ دل سے ماننا، اس نبی کی لائی ہوئی کتاب و شریعت پر عمل کرنا اور اس نبی سے اعتقادی وابستگی و تعلق رکھنا اور پھر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت اور اللہ کے آخری دین اسلام کی دعوت پا کر صدق دل سے اس کے حلقہ بگوش ہو جانا، نہ صرف یہ کہ ان کے کمال انقیاد و اطاعت اور ان کی فکری و ذہنی سلامت روی کی علامت ہے بلکہ اس معنی میں ان کے قلبی و عملی ایثار کا غماز بھی ہے کہ اپنے سابقہ نبی اور سابقہ دین سے عقیدت و تعلق اور زبردست جذباتی لگاؤ کے باوجود انہوں نے دعوت اسلام پا کر اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنی زندگی کا رخ اس طرف موڑ دیا اور اب اپنے اعتقاد کی باگ ڈور دین اسلام کے سپرد کر دی، جب تک ان کے سامنے اسلام کی دعوت نہیں آئی تھی وہ اپنے دین ہی کو اللہ کا دین سمجھ کر اس کے حلقہ بگوش رہے اور جب اسلام کی دعوت ان کے سامنے آئی تو انہوں نے اس کو اللہ کا آخری دین جان کر اپنے پچھلے دین کو چھوڑنے میں کسی ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ فطرت سلیم کی آوز پر لبیک کہہ کر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں شامل ہوگئے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعام کے طور پر ان کو ہر نیک عمل پر دوہرے اجر کا مستحق قرار دیا، ایک اجر تو اپنے پہلے نبی پر ایمان رکھنے کے سبب اور دوسرا اجر پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا ۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں یہ خصوصیت اور امتیاز صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ وہ اپنے تصورات و اعتقادات اور اپنی تعلیمات کی بنیاد " انکار" پر نہیں " اقرار" پر رکھتا ہے یعنی وہ آسمانی دینوں میں کسی رقابت یا رسولوں میں کسی تفریق کی خلیج حائل نہیں کرتا وہ تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق پر زور دیتا ہے اور اللہ کی جانب سے بھیجے گئے تمام رسولوں کی رسالت پر ایمان لانے کی تاکید کرتا ہے، اسلام کے برخلاف دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے اعتقادات و نظریات کو دیکھا جائے تو یہ بات جاننے میں دیر نہیں لگتی کہ ان کے یہاں کوئی آدمی اس وقت تک مذہب کا سچا پیرو اور حقیقی تابعدار نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اس کے ماسوا دوسرے مذاہب کے اعتقاد و تصورات کی بنیادوں کو بالکل ہی مسمار نہ کر دے اور دوسرے رسولوں و پیغمبروں کی رسالت کا بالکل ہی انکار نہ کر دے، اسلام تو ایمان و اعتقاد کے پہلے ہی مرحلہ میں اپنے پیروؤں سے اس بات کا اقرار کراتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کی جانب سے مخلوق کی ہدایت کے لئے آئے ان میں کسی قسم کی تفریق نہ کی جائے ، ان کی لائی ہوئی شریعتوں کو اپنے اپنے زمانہ کے لئے حق اور واجب تسلیم مانا جائے ، وہ اپنے متبعین کو احساس صداقت کا یہ شعور بخشتا ہے کہ آسمانی مذاہب میں کوئی پارٹی بندی نہیں ہے سب ایک ہی صداقت کی کڑیاں ہیں نیز وہ اپنے ماننے والوں کو واضح طور پر آگاہ کر دیتا ہے کہ ایمان کی تکمیل جب ہی ہوگی کہ دوسرے آسمانی مذاہب کی تصدیق بھی کی جائے اور سابقہ تمام انبیاء کی صداقت کو مانا جائے۔
اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر کوئی یہودی یا عیسائی ایمان لائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا صدق دل سے اقرار کرے۔ تو اپنے نبی پر لایا ہوا اس کا پہلا ایمان ضائع نہیں جائے گا بلکہ وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا جائے گا لیکن وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی اگر تصدیق نہیں کرتا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہیں لاتا تو نہ صرف یہ کہ وہ کفر و انکار کی بنا پر ہمیشگی والے عذاب کا مستحق سمجھا جائے گا بلکہ اس کا اپنے نبی پر لایا ہوا ایمان بھی رائیگاں اور بیکار سمجھا جائے گا اور اس پر کسی قسم کے اجر و ثواب کا استحقاق پیدا نہیں ہوگا کیونکہ جس طرح تمام انبیاء پر ایمان لانا اور ان کی رسالت کی تصدیق کرنا لازم ہے اسی طرح عمل اور پیروی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ضروری ہے اور مدار نجات صرف اسلام کی اطاعت و فرمانبرداری ہی ہے۔
دوسرے آدمی کے لئے دوہرے اجر کی خوشخبری کا سبب بھی واضح ہے یعنی یہ کہ ایک غلام کے لئے نہ صرف سماجی روایتی اور دنیاوی حیثیت سے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مالک و آقا کی اطاعت و فرمانبرداری کرے اور اس کے احکام کی پوری پوری تعمیل کرے بلکہ اسلامی تعلیم کا تقاضا بھی یہ ہے کہ وہ مالک و آقا کے عائد شدہ حقوق کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی یا سستی نہ کرے، لہٰذا ایک غلام جب اپنے آقا کے حقوق کی پوری نگہداشت کرتا ہے اور حقوق کی ادائیگی کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے حقیقی مالک اور پروردگار اللہ رب العالمین کے احکام کی بجا آوری بھی پورے حقوق کے ساتھ کرتا ہے اور اس کے عائد کئے ہوئے تمام فرائض کی تکمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا تو وہ دوہرے اجر کا استحقاق پیدا کر لیتا ہے۔
اب رہ گیا تیسرا آدمی تو اس کو بھی دوہرے اجر کا مستحق اس بنا پر قرار دیا گیا ہے کہ اول تو اس نے ایک لونڈی کو آزاد کیا جو نہ صرف یہ کہ انسانیت اور فطرت کے اعتبار کے تقاضا کو پورا کرنا ہے بلکہ اسلامی اخلاق کے اعلیٰ اصول و قواعد پر عمل کرنا بھی ہے ، دوسرے یہ کہ اس لونڈی کو آزاد کرکے اور پھر اس سے شادی کر کے اس نے انسانی ہمدردی، اسلامی مساوات، اور بلند اخلاقی کا اس طرح اعلیٰ ثبوت دیا کہ ایسی عورت کو جو سماجی حیثیت سے ایک کمتر، بے وقعت اور ذلیل بن کر رہ گئی تھی، اچھی تربیت، اعلیٰ تعلیم اور پھر آزادی و شادی کی گراں قدر دولت سے نواز کر دنیا کی باعزت اور سوسائٹی و معاشرہ کی شریف و معزز عورتوں کے برابر بھی لا کھڑا کیا، اس طرح اس نے اگر ایک طرف انسانیت اور اخلاق کے تقاضے کو پورا کیا، تو دوسری طرف اسلامی تعلیم کی روح کو بھی اجاگر کیا پس اس کے اس ایثار کی بناء پر شریعت نے اس کو بھی دوہرے اجر کا استحقاق عطا کیا۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے دوہرے اجر کے بارے میں لکھا ہے کہ ان لوگوں کے نامہ اعمال میں جزاء اور ثواب کی یہ دوگنی اضافت اس طرح ہوگی کہ ان کو ہر عمل پر دوسروں کے مقابلہ میں دوہرا ثواب ملے گا، مثلاً اگر کوئی دوسرا آدمی نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے یا کوئی اور نیک کام کرتا ہے تو اس کو عمومی خوشخبری کے تحت دس ثواب ملیں گے لیکن یہی عمل اگر یہ تینوں کریں گے تو ان کو ہر ایک عمل پر بیس بیس ثواب ملیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں