مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1049

عورتوں کے مسجد جانے کا مسئلہ

راوی:

وَعَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ عَبْدِاﷲِ عُمَرَاَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلٌ اَھْلَہ، اَنْ یَأتُو الْمَسَاجِدَ فَقَالَ ابْنٌ لِعَبْدِاﷲِ بْنِ عُمَرَ فَاِنَّا نَمْنَعُھُنَّ فَقَالَ عَبْدُاﷲِ اُحَدِّثُکَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَتَقُوْلُ ھٰذَا قَالَ فَمَا کَلَّمَہ، عَبْدُاﷲِ حَتّٰی مَاتَ۔ (رواہ احمد بن حنبل)

" حضرت مجاہد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " کوئی آدمی اپنے اہل (یعنی اپنی بیوی) کو مساجد میں جانے سے منع نہ کرے۔" (یہ سن کر) حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک صاحبزداے (بلال) نے کہا کہ " ہم تو انہیں منع کریں گے۔" حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا کہ " میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو۔" راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بیٹے سے (آخر عمر تک) گفتگو نہیں کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔" (مسند احمد بن حنبل)

تشریح
اس حدیث کی وضاحت وہی ہے جو پہلے کی جا چکی ہے کہ اپنے صاحبزادے سے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس قدر شدید ناراضگی کہ آخر عمر تک ان سے گفتگو نہیں کی محض اس بناء پر تھی کہ ان کے صاحبزادے نے اپنے مافی الضمیر کو اس انداز سے ظاہر کیا جو حدیث نبوی کے مقابل معلوم ہوتا تھا۔ بہر حال اس حدیث سے اتنی بات معلوم ہوئی کہ اگر کسی آدمی کی اولاد سنت کو ترک کر دے یا سنت کے خلاف اپنی رائے کو غلط انداز میں پیش کرے تو اس سے ترک کلام کیا جا سکتا ہے۔
اس باب کی چونکہ یہ آخری حدیث ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے حاصل کرنے میں بعض طریقے اور مسائل جن کا جاننا ضروری ہے نقل کردئیے جائیں۔

یہ حدیث شیئر کریں