مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1086

امامت کا مستحق کون ہے؟

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا کَانُوْا ثَلٰثَۃً فَلْےَؤُمَّھُمَْ اَحَدُھُمْ وَاَحَقُّھُمْ بِالاِمَامَۃِ اَقْرَاُھُمْ رَوَاہُ مُسْلِمٌ۔

" حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب (نماز پڑھنے کے لئے) تین آدمی (جمع) ہوں تو ان میں سے ایک امام بن جائے اور ان میں سے امامت کا زیادہ مستحق وہ ہے جو زیادہ تعلیم یافتہ ہو۔" (صحیح مسلم)

تشریح
" تین آدمیوں" کی قید اتفاقی ہے تین سے کم یا زیادہ ہونے کی شکل میں بھی یہی حکم ہے کہ ان میں سے ایک امام بن جائے اور باقی مقتدی علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابہ عمر کا ایک بڑا حصہ طے کر چکے تھے جب اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئے اس وجہ سے وہ لوگ قرآن پڑھنے سے پہلے علم دین سیکھتے تھے لیکن بعد میں یہ صورت نہ رہی بلکہ اب تو لوگ عمر کے ابتدائی حصے میں علم دین حاصل کرنے سے پہلے قرآن کریم پڑھنا سیکھ لیتے ہیں۔
بہر حال۔ امامت کے سلسلے میں اچھے قاری پر اس فقیہ اور عالم کو اولیت حاصل ہوگی جو نماز کے احکام و مسائل کا علم جانتا ہو معاملات کا زیادہ علم رکھنے والا قاری پر مقدم نہیں ہو سکتا۔
وَذَکَرَ حَدِیْثٌ مَالِکِ بْنِ اَلْحُوَیْرِثِ فِیْ بَابِ فَضْلِ الْاذَانَ اور مالک بن حویرث کی روایت باب فضل الاذان کے بعد کے باب میں ذکر کی جا چکی ہے (یعنی اس حدیث کو صاحب مصابیح نے یہاں ذکر کیا تھا مگر ہم نے اسے وہاں نقل کر دیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں