مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1088

امامت کا مستحق کون ہے؟

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ عَطِیَّۃَ الْعُقَیْلِیْ قَالَ کَانَ مَالِکُ بْنُ الْحَوَیْرِثِ یَأتِیْنَا اِلٰی مُصَلَّانَا یَتَحَدَّثُ فَحَضَرَتِ الصَّلَاۃُ یَوْمًا قَالَ اَبُوْ عَطِیَّۃَ فَقُلْنَا لَہ، تَقَدَّمْ فَصَلِّہٖ قَالَ لَنَا قَدِّ مُوْارَجُلًا مِنْکُمْ یُصَلِّی بِکُمْ وَ سَأُحَدِّ ثُکُمْ لِمَ لَا اُصَلِّی بِکُمْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَلَا یُؤُمَّھُمْ رَجُلٌ مِنْھُمْ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَالتِّرْمِذِیُّ وَالنِّسَائِیُّ اِلَّا اَنَّہ، اِقْتَصَرَ عَلَی لَفْظِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم۔

" اور حضرت ابوعطیہ عقیلی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی) مسجد میں آیا کرتے تھے اور (ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) حدیث بیان کرتے (اور بات چیت کرتے رہتے) تھے ایک دن (جب کہ وہ ہمارے درمیان مسجد میں موجود تھے) نماز کا وقت ہو گیا۔ ابوعطیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مالک سے (ان کی شان صحابیت کی عظمت و فضیلت کے پیش نظر ) کہا کہ آگے ہو جائیے اور ہمیں نماز پڑھائیے حضرت مالک نے فرمایا کہ " تم اپنے ہی میں سے کسی کو آگے کرو تاکہ وہ تمہیں نماز پڑھائے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں نماز کیوں نہیں پڑھاتا (تو سنو کہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ " جو آدمی کسی قوم سے ملاقات کرے تو وہ ان کی امامت نہ کرے (بلکہ ان میں سے کسی آدمی کو ان کی امامت کرنی چاہیے۔" (ابوداؤد، جامع ترمذی ) نسائی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے مگر انہوں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذکر نہیں کیا بلکہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ پر اکتفاء کیا ہے یعنی انہوں نے اپنی روایت میں حضرت مالک کے مسجد میں آنے کا واقعہ اور ان کا امامت سے انکار کرنا ذکر نہیں کیا بلکہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ " من زاد" سے آخر تک نقل کیا ہے)

تشریح
حضرت مالک نے اپنی فضیلت و بڑائی اور ان لوگوں کی اجازت کے باوجود امامت کا فریضہ انجام نہیں دیا کیونکہ ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اشارہ تھا کہ انہوں نے بظاہر حدیث پر عمل کرنا ہی اپنے حق میں بہتر سمجھا۔

یہ حدیث شیئر کریں