مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1098

نماز کو بھاری نہیں بنانا چاہیے

راوی:

عَنْ اَنَسٍ ص قَالَ مَا صَلَّےْتُ وَرَآءَ اِمَامٍ قَطُّ اَخَفَّ صَلٰوۃً وَّلَا اَتَمَّ صَلٰوۃً مِّنَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَاِنْ کَانَ لَےَسْمَعُ بُکَآءَ الصَّبِیِّ فَےُخَفِّفُ مَخَافَۃَ اَنْ تُفْتَنَ اُمُّہُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے زیادہ ہلکی اور کامل نماز کسی امام کے پیچھے نہیں پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی (عادت تھی کہ ) جب آپ نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اس اندیشے سے کہ اس کی ماں کہیں فکر مند نہ ہو جائے نماز کو ہلکا کر دیتے تھے۔" (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیث کے اول جز کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز باوجود پورے کمال و اتمام کے بہت ہلکی ہوتی تھی اور ہلکی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ قرأت اور تسبیحات حد سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اور قرأت میں بے محل مدوشد نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کی قرأت بے تکلف اور ترتیل کے ساتھ ہوتی تھی اور یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کی خاصیت تھی کہ اگرچہ وہ طویل ہوتی تھی مگر لوگوں کو ہلکی معلوم ہوتی تھی۔
حاصل یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت ہلکی ہوتی تھی اور رکوع وسجود نیز تعدیل ارکان وغیرہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔
حنفی مسلک میں یہ مسئلہ ہے کہ امام کے لئے مناسب نہیں ہے کہ تسبیحات وغیرہ کو اتنا طویل کرے کہ لوگ ملول ہوں کیونکہ نماز کو زیادہ طویل کرنا نماز کی طرف سے لوگوں کو بے توجہ بنانا ہے اور یہ مکروہ ہے ہاں اگر مقتدیوں ہی کی یہ خواہش ہو کہ قرأت و تسبیحات وغیرہ طویل ہوں تو پھر ان میں امام زیادتی کر سکتا ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں اس امام کو یہ بھی نہیں چاہیے کہ مقتدیوں کو خوش کرنے کی غرض سے قرأت اور تسبیحات میں اس درجے سے بھی کمی کر دے جو سب سے کم مسنون درجہ ہے۔
حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو نماز ہلکی کر دیا کرتے تھے ۔ تاکہ اس بچے کی ماں جو جماعت میں شامل ہوتی، بچے کی طرف سے فکر میں نہ پڑ جائے اور جس کی وجہ سے اس کی نماز کا حضور اور خشوع و خضوع ختم ہو جائے۔
خطابی نے اس جملہ کے فائدے میں کہا ہے کہ " اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ امام رکوع میں ہونے کی حالت میں اگر آہٹ پائے کہ کوئی آدمی نماز میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتا ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ رکوع میں اس آدمی کا انتظار کرے تاکہ وہ آدمی رکعت حاصل کرے مگر بعض حضرات نے اسے مکروہ قرار دیا ہے بلکہ ان حضرات کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے والے کے بارے میں یہ خوف ہے کہ وہ کہیں شرک کی حد تک پہنچ جائے گا ۔ چنانچہ یہی مسلک حضرت امام مالک کا بھی ہے ۔ حنفی مسلک یہ ہے کہ امام اگر رکوع کو تقرب الی اللہ کی نیت سے نہیں بلکہ اس مقصد سے طویل کرے گا کہ کوئی آنے والا آدمی رکوع میں شامل ہو کر رکعت پا لے تو یہ مکروہ تحریمی ہوگا۔ بلکہ اس سے بھی بڑے گناہ کے مرتکب ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے تاہم کفر و شرک کی حد تک نہیں پہنچے گا کیونکہ اس سے اس کی نیت غیر اللہ کی عبادت بہر حال نہیں ہوگی۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ اگر امام آنے والے کو پہچانتا نہیں ہے تو اس شکل میں رکوع کو طویل کرنے کا کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کا ترک اولیٰ ہے ہاں اگر کوئی امام تقرب الی اللہ کی نیت سے رکوع کو طویل کرے اور اس پاک جذبے کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس میں شک نہیں کہ ایسی حالت کا ہونا چونکہ نادر ہے اور پھر یہ کہ اس مسئلے کا نام ہی " مسئلہ الریا " ہے اس لئے اس سلسلے میں کمال احتیاط ہی اولیٰ ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں