مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ وتر کا بیان ۔ حدیث 1248

نماز وتر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا

راوی:

عَنْ عَلِیِّ قَالَ اِنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقُوْلُ فِی اٰخِرِ وِتْرِہٖ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِرَضَآئِکَ مِنْ سَخْطِکَ بِمُعَا فَاتِکَ مِنْ عُقُوْبِتِکَ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ۔(رواہ ابوداؤدو الترمذی والنسائی وابن ماجۃ)

" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز و تر کے آخر میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِرَضَائِکَ مِنْ سَخَطِکَ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ اَعُوْذُبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیَ ثَنَاءُ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اے اللہ میں پناہ چاہتا ہوں تیری رضا و خوشنودی کے ذریعے تیرے غضب سے اور تیری عافیت کے ذریعے تیرے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری ذات کے ذریعہ تیرے آثار صفات (یعنی غضب و غصہ سے (مجھ میں طاقت نہیں کہ تیری تعریف کر سکوں کیونکہ) تیری تعریف کا شمار نہیں تو ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے اپنی تعریف کی۔" (سنن ابوداؤد ، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا وتر کی تیسری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھا کرتے تھے چنانچہ حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس کو اختیار کیا ہے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا سلام کے بعد پڑھتے تھے اور بعض کا قول ہے کہ سلام سے پہلے التحیات میں پڑھتے تھے اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ آپ یہ دعا سجود میں پڑھا کرتے تھے۔
سنن نسائی نے ایک روایت اور نقل کی ہے جس میں صراحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہو جاتے اور بستر پر تشریف لاتے تو یہ دعا پڑھتے ۔ وا اللہ اعلم
مستقل طور پر کسی خاص دعاء قنوت کو مقرر کر لینے کا مسئلہ
علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ " علماء کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ دعائے قنوت کے سلسلے میں تو قیف نہ کی جائے یعنی ایک ہی دعا کو پڑھنے کے لئے بطور خاص مقرر نہ کر لیا جائے کیونکہ کسی دعا کو مقرر کر لینے اور پھر اسی کو مستقل طو پر پڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ دعا زبان پر بایں طور جاری ہو جاتی ہے کہ قلب زبان کی ہمنوائی سے محروم ہوتا ہے ۔ یعنی اس دعا کے پڑھنے کے وقت عادت کے مطابق صرف زبان ہی کام کرتی ہے دل میں نہ تو دعا کے مقصود کی لگن ہوتی ہے اور نہ اس کی طرف رغبت کا احساس ہوتا ہے لہٰذا دعا کا جو مقصود اور مطلوب ہوتا ہے وہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ دعا تو وہی کام کرتی ہے جو قلب کی گہرائیوں سے نکلتی ہے اور جو احساس و شعور اور دلی رغبت زبان کی ہمنوا ہوتی ہے۔
لیکن بعض دوسرے علماء یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ حکم اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُک الخ کے علاوہ دوسری دعاؤں کے بارے میں ہے یعنی اسی دعا کو بطور خاص مستقل طور پر پڑھنے کے لئے مقرر کر لینا منع نہیں ہے البتہ اس کے علاوہ دوسری دعاؤں کو مستقل طور پر اختیار نہ کیا جائے بلکہ کبھی کوئی دعا پڑھ لی جائے اور کبھی کوئی کیونکہ صحابہ کرام نے اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُک الخ کے پڑھنے پر اتفاق کیا ہے اور یہی دعا مستقل طور پر پڑھتے تھے اگرچہ اس کے علاوہ دوسری دعائے قنوت بھی جائز ہے ۔ اسی طرح "محیط" میں اَللّٰہُمَّ اھْدِنِیْ کو بھی متسثنیٰ قرار دیا گیا ہے یعنی اس دعا کی تو قیف بھی ممنوع نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں