مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ وتر کا بیان ۔ حدیث 1262

دعاء قنوت پڑھنے کا وقت

راوی:

وَعَنْ عَاصِمِ الْاَحْوَلِ ص قَالَ سَاَلْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ عَنِ الْقُنُوْتِ فِی الصَّلٰوۃِ کَانَ قَبْلَ الرُّکُوْعِ اَوْ بَعْدَہُ قَالَ قَبْلَہُ اِنَّمَا قَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ الرُّکُوْعِ شَھْرًا اِنَّہُ کَانَ بَعَثَ اُنَاسًا ےُّقَالُ لَھُمُ القُرَّآءُ سَبْعُوْنَ رَجُلًا فَاُصِےْبُوْا فَقَنَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ الرُّکُوْعِ شَھْرًا ےَّدْعُوْ عَلَےْھِمْ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت عاصم احول فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ (صبح کی نماز میں یا وتر کی یا کسی حادثہ کی یا وبا پھیلنے کے وقت ہر فرض) نماز میں وہ رکوع سے پہلے پڑھی جاتی تھی یا رکوع کے بعد ؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے (اور فرمایا کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صبح کی نماز میں یا سب نمازوں میں) رکوع کے بعد دعاء قنوت صرف ایک مرتبہ پڑھی تھی (اور وہ بھی) اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کو جنہیں قراء کہتے تھے اور تعداد میں ستر تھے (تبلیغ کے لئے کہیں) بھیجا تھا وہاں کے لوگوں نے انہیں شہید کر دیا اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھ کر قراء کو شہید کرنے والوں کے لئے بد دعا کی ۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رکوع کے بعد دعاء قنوت کا پڑھنا منسوخ ہو گیا ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے۔
قراء سبعون کی شہادت کا واقعہ : قراء سبعون یعنی ستر قاری اصحاب صفہ میں سے تھے انہیں قراء اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم بہت زیادہ پڑھتے اور بہت یاد کرتے تھے۔ حالانکہ یہ حضرات بہت زیادہ غریب اور زاہد تھے اور ان کا کام صرف یہ تھا کہ صفہ میں ہر وقت قرآن اور علم کے سیکھنے میں مشغول رہتے تھے لیکن اس کے باوجود جب بھی مسلمان کسی حادثے میں مبتلا ہوتے تو یہ حضرات پوری شجاعت اور بہادری کے ساتھ حادثے کا مقابلہ کرتے اور مسلمانوں کی مدد کرتے۔
ان میں سے بعض حضرات تو ایسے تھے جو دن بھر جنگل سے لکڑیاں جمع کر کے لاتے اور انہیں بیچ کر اہل صفہ کے لئے کھانا خریدتے تھے اور رات کو قرآن کریم کی تلاوت ودرود میں مشغول رہتے تھے۔
ان خوش نصیب صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کی طرف بھیجا تھا تاکہ یہ وہاں پہنچ کر ان قبائل کو اسلام کی طرف بلائیں اور ان کے سامنے قرآن کریم پڑھیں جو کفر و شرک اور ظلم وجہل میں پھنس کر تباہی و بربادی کے راستے پر لگے ہوئے ہیں جب یہ لوگ بیر معونہ پر جو مکہ اور عسفان کے درمیان ایک موضع ہے ، اترے تو عامر بن طفیل ، رعل ، ذکوان اور قارہ نے ان قراء صحابہ پر بڑی بے دردی سے حملہ کیا اور پوری جماعت کو شہید کر ڈالا، ان میں سے صرف ایک صحابی حضرت کعب بن زید انصاری بچ گئے وہ بھی اس طرح کہ جب یہ زخمی ہو کر گر گئے اور جسم بالکل نڈھال ہو گیا ، تو ان بدبختوں نے یہ سمجھ کر کہ ان کی روح نے بھی جسم کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ان سے الگ ہوئے مگر خوش قسمتی سے ابھی ان میں زندگی کے آثار موجود تھے چنانچہ وہ کسی نہ کسی طرح بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور اللہ نے ان کو صحت و تندرستی عطا فرمائی یہاں تک کہ غزوہ خندق میں شہید ہوئے۔
بہر حال جب سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عظیم حادثے اور ظالم کفار کے ظلم و بربریت کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد غم ہوا، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کے لئے اتنا غمگین نہیں دیکھا جتنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مظلوم صحابہ کے لئے غمگین ہوئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ایک مہینہ تک قنوت میں ان بد بخت کفار کے لئے بد دعا کرتے رہے، یہ واقعہ ٤ھ میں پیش آیا۔

یہ حدیث شیئر کریں