مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ وتر کا بیان ۔ حدیث 1266

آخری نصف رمضان میں اور رکوع کے بعد قنوت پڑھنے کا مسئلہ

راوی:

عَنِ الْحَسَنِ اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ جَمَعَ النَّاسَ عَلَی اُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ فَکَانَ یُصَلِّی لَھُمْ عِشْرِیْنِ لَیْلَۃً وَّلَا یَقْنُتُ بِھِمْ اِلَّا فِی النِّصْفِ الْبَاقِی فَاِذَا کَانَتِ الْعَشْرُ الْاٰوَاخِرُ تَخَلَّفَ فَصَلَّی فِی بَیْتِہٖ فَکَانُوْا یَقُوْلُوْنَ اُبَقَ اَبَیُّ رَوَاہ، اَبُوْدَاؤدَ وَسُئِلَ اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ عَنِ الْقُوْنُتِ فَقَالَ قَنَتَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم بَعْدَ الرُّکُوْعِ وَفِی رِوَایَۃٍ قَبْلَ الرُّکُوْعِ وَبَعْدَہ،۔ (رواہ ابن ماجۃ)

" حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو رمضان میں نماز تراویح کے لئے) جمع کیا اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام بنایا ، حضرت ابی بن کعب نے ان کو بیس راتوں تک نماز پڑھائی اور انہوں نے لوگوں کے ساتھ دعا قنوت سوائے آخری نصف رمضان کے اور دنوں میں نہیں پڑھی اور جب آخر کے دس روزے رہ گئے تو حضرت ابی بن کعب مسجد میں نہ آئے بلکہ (وتر کی) نماز اپنے گھر میں پڑھنے لگے، لوگ کہتے کہ " ابی بھاگ گئے" (ابوداؤد) اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا کہ (رکوع سے پہلے پڑھی جائے یا بعد میں؟) تو انہوں نے فرمایا کہ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا قنوت رکوع کے بعد پڑھی ہے" ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا قنوت کبھی رکوع سے پہلے اور کبھی رکوع کے بعد پڑھی ہے۔"

تشریح
حضرت ابی بن کعب ایک جلیل القدر اور بڑی عظمت و شان کے مالک صحابی تھے، جہاں ان کی اور بہت سی امتیازی خصوصیات تھیں وہیں آپ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں پورا قرآن کریم حفظ کر لیا تھا۔
نیز یہ کہ صحابہ میں بڑے اونچے درجے کے قاری مانے جاتے تھے ، اسی وجہ سے آپ کو " سید القراء" کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا ، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی انہیں خصوصیات کی بنا پر انہیں رمضان میں تراویح کی نماز کے لئے امام مقرر فرمایا تاکہ لوگ ان کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھیں۔
یہ دونوں حدیثیں جو حضرت حسن بصری سے منقول ہیں حضرات شوافع کی مستدل ہیں۔
پہلی حدیث تو اس بات کی دلیل ہے کہ " دعاء قنوت صرف رمضان کے آخری نصف حصے میں پڑھی جائے " علماء احناف فرماتے ہیں کہ اول تو مطلقا ً وتر میں دعا قنوت کا پڑھنا مشروع ہوا ہے اور چونکہ وتر کی نماز ہمیشہ پڑھی جاتی ہے اس لئے دعاء قنوت بھی ہمیشہ پڑھی جائے گی۔
دوسرے یہ کہ زیادہ ایسی ہی احادیث وارد ہیں جن میں بلا تخصیص رمضان ، وتر کی نماز میں دعاء قنوت پڑھنا ثابت ہوتا ہے لہٰذا اس اعتبار سے بھی ہمیشہ وتر کی نماز میں دعاء قنوت کا پڑھنا اولیٰ اور ارجح ہوگا۔
دوسری حدیث شوافع کے لئے اس بات کی دلیل ہے کہ " دعاء قنوت رکوع کے بعد پڑھی جائے" اس کا جواب حنفی علماء کی جانب سے یہ دیا جاتا ہے کہ رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھنے کے سلسلے میں احادیث زیادہ تعداد میں منقول ہیں ، پھر یہ کہ صحابہ کا عمل بھی انہیں احادیث کے مطابق نقل کیا گیا ہے اس لئے احادیث عمل کرنا چاہیے۔
جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن سے رکوع کے بعد دعا قنوت پڑھنا ثابت ہوتا ہے تو اس کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ ان احادیث کا تعلق صرف ایک مہینے سے ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد قنوت پڑھی ہے ۔ مستقل طریقے سے رکوع کے بعد عاء قنوت پڑھنے سے اس کا تعلق نہیں ہے۔
ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رمضان کے آخری نصف حصے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں کے لئے بد دعا کرنے کی وجہ سے دعاء قنوت پڑھتے ہوں گے کیونکہ صحیح سند کے ساتھ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ :
" جب آدھا رمضان گذر جائے تو (رمضان کے آخری نصف حصے میں) وتر میں کفار پر لعنت بھیجنا سنت ہے۔"
ابق ابی کے الفاظ کہہ کر لوگوں نے حضرت ابی کو بھاگنے والے غلام کے ساتھ تشبیہ دی، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کی نظر میں حضرت ابی کا یہ عمل کہ " آخری دس دنوں میں مسجد میں نہیں آئے" مکروہ معلوم ہوا۔ حالانکہ حضرت ابی کسی عذر کی بناء پر ہی رمضان کے آخری عشرے میں مسجد نہیں آئے ہوں گے۔
اور عذر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ ان ایام میں خلوت اختیار کرتے تھے تاکہ عبادت کا وہ کمال خلوت میں حاصل ہو جائے جو جلوت میں حاصل نہیں ہوتا۔
حدیث کے الفاظ " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء قنوت رکوع کے بعد پڑھی ہے" سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک مہینے تک (فجر کی نماز میں) رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھی ہے اور اس پر دلیل صحیح البخاری و صحیح مسلم کی وہ روایت ہے جو عاصم احول سے منقول ہے (ملا حظہ فرمائے اسی باب کی حدیث نمبر ٢)
آخری روایت کا مفہوم یہ ہے کہ " کبھی (یعنی وتر میں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعاء قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے اور کبھی (یعنی کسی حادثے و وباء کے وقت) رکوع کے بعد پڑھتے تھے"
اس مفہوم سے ان تمام احادیث میں تطبیق ہو جائے گی جن میں سے بعض روایات تو رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں اور بعض روایتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑتے تھے"

یہ حدیث شیئر کریں